بلاگزعوام کی آواز

کزن میرج، خونی رشتوں کو مضبوط کرنے کی راہ یا وبالِ جان

سندس بہروز                         

پریشان حال رضیہ کو اس بات کا غم بھی تھا کہ اس کا گھر ٹوٹنے جا رہا تھا اور اس بات کا دکھ بھی کہ اس کے گھر کے ساتھ ساتھ اس کے والد اور ان کی بہن کا پیار بھرا رشتہ بھی ختم ہو جائے گا۔

رضیہ کی شادی اس کے پھوپھو زاد سے ہوئی تھی۔ یہ رشتہ بہت چاہ سے اس کی پھوپھو نے مانگا تھا اور اس کے والد نے اپنی بہن کا مان رکھا۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ اس رشتےسے ان دونوں بہن بھائی کا رشتہ اور مضبوط ہو جائے گا مگر شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

شادی کے بعد پھوپھو کا اصلی روپ سامنے آیا۔ اب وہ پیار کرنے والی اور ناز اٹھانے والی پھوپھو نہیں بلکہ صرف ایک ساس تھی۔ رضیہ نے یہ سب بھی برداشت کیا۔ اس کو ہر روز یہ طعنے ملتے کہ اس کی ماں نے ان کے ساتھ کیسے برے سلوک کئے تھے اور ان کے بھائی کو کیسے ان سے چھینا تھا۔

رضیہ کے مطابق وہ ہر وقت اس کے شوہر کو اس کے خلاف بھڑکاتی تاکہ وہ اپنی بیوی سے لڑے اور دور دور رہے۔ اس کے مطابق اس کی ساس کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہی ان کا بیٹا ان سے دور نہ ہو جائے۔ پہلے تو رضیہ نے صبر کیا مگر جب معاملات حد سے زیادہ بگڑنے لگے تو اس نے اپنے والد صاحب سے شکایت کی۔ اس کے والد صاحب نے اپنی بہن کو گھر بلا کر خوب ڈانٹا۔ جس کے بعد رضیہ کی زندگی اور خراب ہو گئی۔ یہاں تک کہ نوبت گھر ٹوٹنے تک پہنچ گئی۔

اب وہ بہن بھائی جو ایک دوسرے کے گن گاتے تھے اور ان کی محبت کی مثالیں دی جاتی تھی ایک دوسرے کی نفرت میں ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے۔

رضیہ نے مجھے بتایا کہ اس رشتے سے وہ خوش نہیں تھی مگر اس کے والد صاحب اس کا انکار سننے کو تیار نہ تھے۔ وہ کہتے کہ ان کے بھانجے میں آخر کیا کمی ہے؟ رضیہ بہت سارے خدشات کے ساتھ اس رشتے کے لیے مانی تھی کیونکہ وہ اپنے والد صاحب کو خفا نہیں کرنا چاہتی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خدشات سچ ثابت ہونے لگے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ دو بہن بھائی اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے بچوں کو قربان کرتے ہیں اور اکثر اس کے نتائج بہت منفی ہوتے ہیں۔ کتنے ہی بچے اپنے ماں باپ اور ان کے بہن بھائیوں کے پیار کی بھینٹ چڑھے اور غم کے سوا ان کے مقدر میں کچھ نہیں آیا مگر افسوس والدین اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ ایسے رشتے خراب ہونے سے صرف بچوں کے گھر نہیں ٹوٹتے بلکہ وہ بہن بھائی جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے، جدا ہو جاتے ہیں اور مرتے دم تک ایک دوسرے کو اپنی شکل تک نہیں دکھاتے۔

رضیہ جیسی بہت سی لڑکیاں ہیں جن سے قربانیاں مانگی گئی اور انہوں نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تن من دھن کی قربانیاں دی بھی مگر بے سود۔

بعد میں افسوس کرنے سے پہلے اچھا ہے کہ ہم وقت پر ہی کوئی ٹھیک فیصلہ کریں اور بچوں کی شادیاں کرتے وقت ان کی مرضی ضرور پوچھیں کیونکہ زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے۔ اور ویسے بھی جس رشتے کا آغاز ہی بدگمانیوں سے ہو اس کا اختتام اکثر جلد دیکھنے کو ملتا ہے۔

 

Show More

Sundas Behroz

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں

متعلقہ پوسٹس

Back to top button