یہ دیکھوں لڑکی ہو کر بھی اکیلے منہ اٹھائے کہی بھی نکل پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
رانی عندلیب
پاکستانی معاشرے میں کچھ سال پہلے خواتین کے اکیلے سفر کرنے کے حوالے سے ایک قدیم تصور موجود تھا کہ اکیلے سفر کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ معاشرتی اصولوں کے تحت ایک لڑکی کو اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور ایسے افراد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا جو اپنے بیٹیوں کو اکیلے جانے دیتے تھے۔ اس پس منظر میں، خواتین کے اکیلے سفر کرنے کا تصور بہت چیلنجنگ اور غیر معمولی سمجھا جاتا تھا۔
حال ہی میں خواتین کے اکیلے سفر کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ تبدیلی ممکنہ طور پر جدید دور کے تقاضوں اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ خواتین اب سیر و سیاحت، تعلیم، اور پیشہ ورانہ مواقع کے لیے اکیلے سفر کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، جو کہ سابقہ روایات اور معاشرتی پابندیوں کے برعکس ہے۔
بی بی زینب کی کہانی
بی بی زینب کی کہانی اس تبدیلی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی تین بہنیں بچپن میں اکیلے سکول جایا کرتی تھیں، کیونکہ ان کے والد کام پر چلے جاتے تھے اور والدہ اکثر ان کے ساتھ نہیں جا پاتی تھیں۔ بی بی زینب نے مزید بتایا کہ ابتدائی دور میں جب انہوں نے تعلیمی فیلوز یا ورکشاپس میں شرکت کی، تو ان کے والد اکثر انہیں سفر کے لیے تیار کرتے تھے، مگر بعد میں جب خواتین کے اغوا اور زیادتی کے واقعات زیادہ رپورٹ ہونے لگے، تو ان کے والد نے انہیں اکیلے سفر کرنے سے روک دیا۔
بی بی زینب نے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد اور دیگر محفوظ علاقوں میں خواتین کو اکیلے سفر کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، جبکہ پشاور اور کے پی کے دیگر علاقوں میں یہ مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں خواتین کو زیادہ آزادی ملتی ہے، اور یہاں کی سیکیورٹی سے وہاں کی صورتحال نسبتا بہتر ہے۔ تاہم، بی بی زینب نے یہ بھی تسلیم کیا کہ خواتین کے لیے سفر کرنا کبھی بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوتا، اور وہ ہمیشہ محتاط رہتی ہیں۔
سیکیورٹی اور سماجی تحفظ کے حوالے سے بی بی زینب نے سیکیورٹی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دن کے وقت اور محفوظ مقامات پر سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ خواتین کے لیے سیکیورٹی کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہتا ہے، اور وہ اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ وہ دفتر اور دیگر مقامات پر وقت پر پہنچیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔
اسلامی نقطہ نظر
اسلامی نقطہ نظر کے تحت، خواتین کے سفر کرنے کے متعلق بعض روایات ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کوئی عورت تین راتوں کی مسافت کے سفر کے لیے اکیلی نہ جائے، جب تک کہ اس کے ساتھ محرم نہ ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ کی روایات کے مطابق، عورتوں کو سفر کے دوران محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں خواتین کے اکیلے سفر کرنے کے رجحان نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔
آج کے دور میں، خواتین اکیلے سفر کرنے کے لیے زیادہ اعتماد اور آزادی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ سیکیورٹی کی صورتحال اور معاشرتی سوچ میں تبدیلی نے انہیں اپنے سفر کے مواقع بڑھانے کی اجازت دی ہے۔ لیکن، پھر بھی، خواتین کو سفر کے دوران سیکیورٹی کی احتیاطیں برقرار رکھنی پڑتی ہیں اور انہیں اپنے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین کے اکیلے سفر کرنے کا تصور بتدریج بدل رہا ہے۔ بی بی زینب کی کہانی اور ان کے تجربات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ خواتین نے معاشرتی روایات اور سیکیورٹی کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اکیلے سفر کرنے کی راہ اختیار کی ہے۔
یہ تبدیلی ایک مثبت قدم ہے جو خواتین کی خود مختاری اور معاشرتی ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاہم، سیکیورٹی اور معاشرتی تحفظ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور خواتین کو ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے تاکہ سفر کا تجربہ محفوظ اور خوشگوار رہے۔