بچوں کو پاپڑ، چپس، مختلف نمکو اور ٹافی وغیرہ کی صورت میں زہر دے رہے ہیں یا کھانا ؟
نازیہ
آپ نے بچوں کو بمشکل دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوۓ دیکھا ہوگا۔ روزانہ کی بنیاد پر بچے کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔ ان بچوں کی جیسے ہی دسترخوان پر نظر پڑتی ہیں تو وہ اپنے والدین سے پیسے لے کر مارکیٹ کی طرف دوڑ لگاتے ہیں اور پاپڑ یا چپس، مختلف نمکو اور ٹافی وغیرہ خرید کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ بچے جب یہ کھا لیتے ہیں تو وہ کھانے کے نزدیک بھی نہیں آتے ہیں، کیونکہ ان چیزوں کے کھانے کی وجہ سے ان کی بھوک جلدی مٹ جاتی ہے۔
بچوں کا مدافعتی نظام تو ویسے بھی کمزور ہوتا ہے اور بالآخر اس سب کے کھانے کی وجہ سے ان بچوں کا مدافعتی نظام اور بھی کمزور ہو جاتا ہے اور یوں بچے جلدی بیمار ہو جاتے ہیں۔ ان چیزوں کے کھانے کی وجہ سے بچے آئے روز مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جس میں پیٹ اور آنتوں کی بیماریاں، گلے، معدے، منہ میں چھالیں، یرقان اور مختلف قسم کے انفیکشنز شامل ہے۔
ان سب میں کسی حد تک والدین بھی قصور وار ہے کیونکہ میں نے اکثر ماؤں کو دیکھا ہے جب وہ کہیں جا رہی ہوتی ہے تو اپنے بچوں کے لیے سب سے پہلے ان پاپڑ وغیرہ کا انتظام کرتی ہے تاکہ یہ بچے راستے میں تنگ نہ کریں اور روئے بھی نہ۔ زیادہ تر والد ایسے بھی ہوتے ہیں جب وہ رات کو گھر جا رہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے بچوں کے لیے یہی پاپڑ وغیرہ لیتے ہیں کیونکہ بچے اس خوراک کے اتنے عادی ہو ہوتے ہیں کے والدین بھی یہ زہر خریدنے سے نہیں کتراتے ہیں۔ ماؤں کو چاہیے کہ گھر پر ہی اپنے بچوں کے لیے الو سے چپس بناۓ جس سے بچے شوق سے بھی کھائیں گے اور پیسوں کی بچت بھی ہوگی۔
اب آئیے میں آپ لوگوں کو بتاتی ہوں کہ آخر میں ان پاپڑ یا چپس، مختلف نمکو اور ٹافی وغیرہ کو زہر کیوں بول رہی ہوں، تو سنئے زرا ! اس غیر معیاری خوراک کو تیار کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جو انتظامیہ، پولیس اور اسسٹنٹ کمشنرز کی نظروں سے اوجھل ہو کیونکہ ان لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر ہم لوگ ان لوگوں کی گرفت میں آئیں گے تو یہ لوگ ہم پہ چھاپے ماریں گے، گرفتار کرینگے اور ہمارا کاروبار بند ہو جائے گا۔ تو اس وجہ سے یہ کارخانے کسی کچی، چپھی اور گندی جگہ پر بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی یہ کارخانے رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
دوسری بات جب یہ پاپڑ بنائے جاتے ہیں نہ تو اس کے اوپر پیداواری تاریخ لکھی ہوتی ہے اور نا ہی ایکسپائری تاریخ، اور تو اور یہ ظالم لوگ آلو کے نام پر بیچنے والے چپس سے لوگوں کی نظروں میں دھول جونک رہے ہیں کیونکہ ان پاپڑ یا چپس میں سرے سے الو ہوتا ہی نہیں ہے سارا کا سارا ارٹیفیشل فلیور اور رنگ ہوتا ہے۔ ان پاپڑ وغیرہ کے لیے جو تیل استعمال کیا جاتا ہے وہ انتہائی مضر صحت ہوتا ہے اکثر لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ مرغیوں کی چربی کو پگھلا کر اس سے جو تیل نکلتا ہے اس میں یہ پاپڑ بنائے جاتے ہیں کیونکہ یہ تیل ان کو سستا پڑتا ہے۔ ان ظالموں کا کام صرف اور صرف اپنا منافع کمانا ہوتا ہے، لوگوں کے صحت کے ساتھ کھیلنا تو ان کا پیشہ ہے۔
میری یہ بات سن کر آپ لوگوں کو حیرت ہوگی کہ پاپڑ اور نمکو وغیرہ کو چٹخارا دار بنانے کے لیے اس میں تیزاب کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور جو مصالحے پاپڑ میں استعمال ہوتے ہیں وہ انتہائی سستے اور ملاوٹ شدہ ہوتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ملاوٹ شدہ مصالحے کون سے ہوتے ہیں تو سنیے یہ مصالحے بوسہ، چوکر، اینٹ، حد سے زیادہ نمک، رنگ اور ارٹیفیشل فلیور کا امیزش ہوتے ہیں۔ اسی غیر معیاری اور چٹخارے دار خوراک کے چکر میں بچے اپنی مقدار سے زیادہ نمک کھاتے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر بچے چڑچڑاپن، موٹاپا اور بلڈپریشر کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹافیوں میں ارٹیفیشل سویٹنر ڈالا جاتا ہے جو بچوں کی ذہنی نشونما کے لیے انتہائی مضر ہے۔ بچے یہ ٹافیاں بڑے شوق سے کھاتے ہیں اگر آپ لوگوں نے کبھی غور کیا ہو تو ٹافیاں کھانے کے بعد زبان کڑوی سی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں مختلف ذائقے لانے کے لیے مختلف قسم کے کیمیکلز ڈالے جاتے ہیں اس کے علاوہ زبان رنگیلی بھی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں ارٹیفیشل کلر زیادہ مقدار میں ڈالا جاتا ہے۔
آپ لوگوں کو حیرانگی کی ایک بات بتاتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ بچوں کے علاوہ بڑے بھی یہی زہر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہر وہ چیز جو صحت کے لیے مضر ہوتی ہے کیوں ہماری آنکھوں اور زبان کو اتنی بھاتی ہے؟ کم از کم بڑے ہونے کے ناطے ہم میں تو اتنی عقل ہونی چاہیے کہ کون سی خوراک ہماری صحت کے لیے اچھی ہے اور کون سی مضر۔
آخر میں بس اتنا کہوں گی کہ خدارا ان بچوں کے صحت کے ساتھ نہ کھیلیں وہ تو معصوم ہوتے ہیں ان کو اپنے فائدے اور نقصان کا کیا پتہ۔ اور اسی بات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ پاپڑ، مختلف نمکو اور مختلف ٹافیاں وغیرہ بنانے والے حرام کی کمائی میں مگن ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ وہ ان مضر صحت خوراک سے محفوظ رہ سکے۔