عام آدمی کے لیے ہمارے ہاں موت سستی ہے جبکہ انصاف مہنگا، آخر ایسا کیوں
سعدیہ بی بی
عدل و انصاف کسی بھی معاشرے کی بقا ، استحکام اور ترقی کے لیے لازمی جز ہے ۔ جن معاشروں میں عدل و انصاف ناپید ہو جائے ، وہ معاشرہ پھر انتشار اور تنزلی کی طرف بڑھنے لگ جاتا ہے ، اور یوں تباہی و بربادی ان معاشروں کا مقدر بن جاتی ہے ۔ جیسے کہ جب بھی کسی شہری کی حق تلفی ہوتی ہے ، تو وہ داد رسی کے لیے عدالت کی طرف دیکھتا ہے ۔ مگر بد قسمتی سے عدالتوں کے پاس کسی عام آدمی کی داد رسی کے لیے وقت ہی نہیں ۔
عام آدمی کے لیے ہمارے ہاں موت سستی ہے جبکہ انصاف مہنگا ۔ ہمارے نظام عدل کا دہرا معیار دیکھیں معاملہ اگر با اثر اور صاحب اقتدار لوگوں کا ہو تو ریاست کی پوری مشینری متحرک ہو جاتی ہے ۔ انصاف کے پہرے دار راتوں کی نیند قربان کر کے حرکت میں آجاتے ہیں اور آدھی رات کو عدالت لگا دیتے ہیں۔ چھٹیوں کے دن بھی انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتیں کھل جاتی ہیں۔
جب کہ دوسری طرف لاکھوں عام لوگوں کی شکایتیں سالوں سے اداروں کی فائلوں میں دبی ہوئی ہوتی ہیں ، نہ تو ادارے حرکت میں آتے ہے اور نہ ہی انصاف کی مشینری کو کوئی خبر ہوتی ہے ۔ عام آدمی عدالتوں کے چکر کاٹ کر عمر گزار دیتے ہیں ، اپنی عمر کی ساری جمع پونجی لٹا دیتے ہیں ، مگر انہیں انصاف نہیں ملتا ۔ معاشرے کے ایک خاص طبقے کے لیے نظام عدل میں پھرتی کا پیدا ہونا جبکہ عام آدمی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہونا عدل کے نظام میں موجود دہرے معیار کو ظاہر کرتی ہے ۔
اچھا اب کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے تو اس میں اس کی اپنی بھی غلطی ہوگی۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کسی کو معاف کرنے کو تیار نہیں ۔ آپ وہاں اگر یہ بھی لکھ دیں کہ ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے ، بجلی چوری کرنا جرم ہے ، ذخیرہ اندوزی سے باز آ جانا چاہیئے تو لوگ اس کے جواب میں بھی دوڑ کے کوڑی لے آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے حکمران اپنے لیے کچھ ہیں ہمارے لیے کچھ ہیں ۔ کوئی کہے گا کہ اگر حکمران جھوٹ بولتے ہیں تو عوام پر ہی کیوں پابندی ہے ؟ پہلے انہیں جا کر سمجھائیں ، پھر ہمیں سکھائیں ۔
ایک شخص اٹھے گا اور بجلی چوری کے حق میں دلائل پیش کرنے لگے گا کہ اشرافیہ اور حکمرانوں نے جان بوجھ کے بجلی مہنگی کی ، وہ خود بل بھی نہیں دیتے اور عوام کو کہتے ہیں کہ بل دو ۔ کوئی کہے گا کہ ہم آئی ایم ایف کے غلام نہیں جو اس کی ہر بات مانتے رہیں ۔ ذخیرہ اندوز کہے گے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، ہم نے بھی گزارا کرنا ہے ، حکومت تو ہمیں سپورٹ دیتی نہیں ، ایسے میں ہم کس طرح اپنا رزق کمائیں ۔
اسی طرح شادی کی کسی تقریب میں چلے جائیں تو ایسے لگے گا جیسے ہر کوئی پہلی یا آخری مرتبہ کھانا کھا رہا ہے۔ بعض لوگ تو تقریبات میں آدھی آدھی دیگ اپنی پلیٹوں میں انڈیل لیتے ہیں ، ان کا پیٹ تو چند لقموں سے بھر جائے گا لیکن دل نہیں بھرے گا ۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کھانا ضائع ہوگا ، اگر ہم اعتدال سے کام لیں تو مزید کئی لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے ، لیکن نہیں انسان اپنے لیے کچھ سوچتا ہے اور دوسروں کے لیے کچھ ۔
اسی طرح ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیابیاں حاصل کرے ، اس کا معاشرتی درجہ بلند ہو ، عزت و شہرت کی کمی نہ ہو ، ہر شخص اس کی مثال دیتا نظر آئے ۔ لیکن جب وہ یہ بات سوچتا ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ کہیں اس کے کسی ساتھی کو یہ سب چیزیں نہ مل جائیں ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اس کا ساتھی اس کی برابری کر سکے گا ۔ اسی طرح اس کی اہمیت کم ہو جائے گی ۔ تو یہاں بھی انسان اپنے دوست کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ سوچے گا ۔
دہرے معیار کی مثالیں جگہ جگہ دیکھنے میں آتی ہیں ۔ اخلاق کے اس دہرے معیار کا سامنا ہمیں ہر میدان میں کرنا پڑتا ہے ، چاہے وہ سکول و کالج میں پڑھنے والے طلبہ کے درمیان ہو یا پھر ایک دفتر کے ملازمین کے بیچ ، بعض اوقات یہ مظاہرے اپنے قریب عزیز و اقارب اور دوستوں کے تعلقات میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ہماری زندگی میں چنداں گنجائش نہیں ۔ اس سے پہلے کہ اپنے منافقانہ اخلاق کے باعث ہم کوئی بڑا نقصان اٹھائیں اور چاہنے والوں کی نفرت کا سامنا کریں ، ہمیں ایسے دہرے معیار سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔