6 ستمبر یوم دفاع پاکستان، ایک لازوال داستان
حمیراعلیم
انسانی فطرت بڑی متنوع ہے اور ہمیشہ اچھی چیز کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہے ہار برداشت نہیں کر پاتی۔ جب کہ ہار جیت زندگی کا حصہ ہے۔خصوصا ہم پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ چاہے جنگ ہو یا کھیل کا میدان، تعلیمی امتحان ہو یا زندگی کی کوئی آزمائش ہم ہر جگہ اول ہی آئیں۔حالانکہ کلاس روم ہو، کھیل ہو یا جنگ اول صرف ایک ہی فریق آ سکتا ہے باقیوں کو دوئم سوئم اور چند ایک کو فیل بھی ہونا پڑتا ہے۔ مگر یہ بات ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی اپنی گیم میں گولڈ میڈل نہ لے سکے تو ہم اسے اس قدر ٹرول کرتے ہیں کہ بعض اوقات وہ دل برداشتہ ہو کر گیم ہی چھوڑ دیتا ہے۔
1965 کی جنگ میں جب دشمن نے شب خون مارا تو ہماری فوج نے نہایت بہادری سے اس کا مقابلہ کیا اور اسے منہ کی کھانی پڑی۔ ہم 6 ستمبر 1965 ء کے واقعات کو یاد کرتے ہیں تو دل جذبے سے بھر جاتا ہے اور فوجی جوانوں کی لازوال قربانیوں کی داستانیں آنکھیں نم کردیتی ہیں۔ جنگ ستمبر کا تذکرہ دلوں کو گرماتا، جوش وجذبے کو اُبھارتا اور ایمان ویقین کو تازہ کردیتا ہے۔
ہمارے آباد اجداد نے جس طرح لازوال قربانیاں دے کر مادر وطن کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔ ان کی جدو جہد ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ 6 ستمبر1965ء کے دن بھارت نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر لاہور پر چڑھائی کردی۔ لاہور کی پنجاب میں اپنی اہمیت کی وجہ سے اس پر بھارت کی ہمیشہ سے لالچی نظر رہی ہے۔ لاہور سے بھارت کا تاریخی شہر امرتسر محض 28 کلومیٹر دور ہے۔ صبح کا ناشتہ لاہور کرنے کے ناپاک ارادے دلوں میں سجائے بھارت نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر نومولود ریاست پاکستان پر حملہ کردیا۔
پاکستان سے کئی گنا بڑے ملک بھارت کے پاس پاکستان سے کئی گنا زیادہ اسلحہ و جنگی سامان تھا۔ پاکستان کی صرف 2 لاکھ فوج کے مقابلے میں بھارت کے پاس پونے 9 لاکھ فوج موجود تھی، لیکن دشمن کے ان مذموم اور ناپاک ارادوں کو پاک فوج کے غیور، نڈر، بہادر اور جذبہ شہادت سے سرشار نوجوانوں نے چند دنوں میں ہی خاک میں ملا دیا۔چونڈہ کے محاذ پر بھارت نے سینکڑوں ٹینکوں سے دھاوا بولا اور اس قدر طاقت ور دھاوا کہ اس کو یقین تھا کہ محض چند گھنٹوں کے بعد سیالکوٹ سے لے کر لاہور تک ہمارا قبضہ ہو گا اور امرتسر سے لے کر کشمیر تک ان کا جغرافیائی خطہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہوجائے گا۔ کشمیر درحقیقت اسی خطے کے ساتھ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے منسلک ہے۔ستمبر1965ء کی جنگ کا سبب بھی ’’مقبوضہ کشمیر تنازعہ‘‘ ہی بنا ۔
یہ پاک بھارت جنگ 17دنوں تک (6ستمبر تا 23ستمبر) جاری رہی۔ یہ صحیح معنوں میں ایک بھرپور جنگ تھی جس میں فریقین کی گرائونڈ، ائراور نیول فورسز نے حصہ لیا۔6ستمبر کا دن اس لئے بھی ناقابلِ فراموش رہے گا کہ یہ پاکستانی قوم کے عزم و حوصلے اور مورال کی معراج کا دن تھا۔ پاکستانی قوم ہر قسم کا اندرونی، سیاسی، سماجی، مسلکی اور مذہبی اختلاف بالائے طاق رکھ کر ایک ہوگئی تھی۔
یہ ایکتا اور یہ اتحاد بعد میں بھی بڑی حد تک برقراررہا۔ یہ اسی اتحاد اور عزیمِ صمیم کا نتیجہ تھا کہ پاکستان نے انڈیا کی جوہری برتری کا طلسم توڑا اور عین اسی ماہ(مئی 1998)میں بھارت کے پانچ جوہری دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کئے اور اب تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
لیکن 1971 میں جب حکومت پاکستان کے اقدامات کے باعث بنگالی علیحدگی پسندوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے مشرقی حصے میں علیحدگی کی تحریک مکتی باہنی شروع کی جو بعد میں ایک تشّدد پسند گوریلہ فورس میں تبدیل ہو گئی۔ بھارت نے اس سنہری موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا اور اپنی انسانی ہمدردی ظاہر کی اور پاکستان کی اندرونی خانہ جنگی کو ہوا دی اور مکتی باہنی کی کھل کر سیاسی و فوجی حمایت شروع کی اور اِسی دوران بھارتی انٹیلیجنس نے مشرقی پاکستان کے دفاعی نظام کا بغور معائنہ کیا۔
بھارتی فوج کو پاکستانی فوج کے مقابلے میں کئی آسانیاں دستیاب تھیں جن میں زیادہ تعداد، زیادہ اسحلہ، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے مغربی پاکستان پے ساتھ بُرے تعلقات (جو مشرقی پاکستان میں بھارت کی بلا وجہ مداخلت کے باعث تھے) شامل تھے۔ اِس کے علاوہ پاکستانی فوج کو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے مغربی پاکستان(جو اب پاکستان ہے) تک جانے کے لیے بہت لمبا سفر طے کرنا پڑتا تھا اور پاکستان کے پاس ڈھاکہ کے قریب موجود صرف ایک ائیر فیلڈ تھا۔لیکن زیادہ نقصان اس وجہ سے ہوا کہ مشرقی پاکستان بھارت کے ساتھ اتحاد چاہ رہا تھا۔
چنانچہ جنگ کے اختتام پر نوّے ہزار پاکستانی فوجی ھتیار ڈال کر بھارتی قید میں جاچکے تھے اور اِن کی زندگی کے لیے پاکستان کو امریکا اور چین نے جنگ بندی کے لیے کہا جب پاکستان نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی تو پاکستان کے فوجی آفسر سے ایک امریکی ساختہ دستاویز پر دستخط کروائے گئے ، جس کو بنیاد بنا کر بھارت نے یہ ظاہر کیا کہ پاکستان نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور دستخط کر کے اپنی ہار تسلیم کر لی۔
حالانکہ پاکستان کے جنگ بندی پر عمل کرنے کی وجہ سے پاکستانی علاقوں کو واپس کر دیا گیا تھا لیکن مشرقی پاکستان نے واپسی کی بجائے ایک نئے ملک کے طور پر آزاد ہونے کی ٹھان لی ۔ اور اس طرح مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پربنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے نمودار ہو چکا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دو حصوّں میں تقسیم ہوگٰی۔
ہم 1965 میں اپنی فتح کی یادگار کے طور پر ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع مناتے ہوئے 16 دسمبر 1971کا سیاہ دن بھول جاتے ہیں جب ہم سے ہمارا ایک حصہ جدا کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ فوج نے اس جنگ میں بھی بہادری دکھائی اور انتشار پر قابو پا ہی لیا تھا جنرل نیازی نے انٹرنیشنل میڈیا کو یہ بیان بھی دے دیا کہ جنگ اختتام پذیر ہونے والی ہے ۔مگر16 دسمبر 1971 کو انہوں نے کمانڈر چیف اور صدر پاکستان جنرل محمد یحییٰ خان کے حکم پر بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔یہ واقعہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کچھ سال پہلے کارگل کے معرکہ میں پیش آیا تھا۔ ہم جیتی ہوئی جنگ صرف اپنے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہار گئے اور پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔
اگرچہ بظاہر یہ ہار اور بہت بڑا نقصان تھا اور دشمن کی کامیابی کہ وہ ہمارے ملک میں فساد برپا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔مگر اس جنگ میں بھی افواج پاکستان نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔جنگی قیدیوں کے طور پر صعوبتیں جھیلیں۔اس لیے اس جنگ کے ہیروز کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔کیونکہ جنگ ہارنے میں افواج پاکستان کا قصور نہیں تھا۔