بلاگزعوام کی آواز

ارے ظالموں جتنا کھانا کھا سکو اتنا ہی پلیٹ میں ڈالو۔۔۔۔

نازیہ

نا جانے کیوں لوگوں کا دل نہیں دکھتا جب وہ کھانا اور خاص کر مفت کا کھانا بڑی بے رحمی سے ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ جب اپنی جیب سے کھانے کی کوئی چیز منگواتے ہیں تو کھانے کے ساتھ ساتھ انگلیاں چاٹ کر کھاتے ہیں اور اگر کوئی کھانا بچ جاتا ہے تو اس کو پیک کر کے گھر لے جاتے ہیں۔ اپنے پیسوں سے خریدا ہوا جوس کا ڈبا ہی کیوں نہ ہو اس کو تب تک نہیں گراتے جب تک اس میں سے ایک ایک بوند نہ نکالے۔ آئس کریم کے ڈبے کو تب تک نہیں گراتے جب تک پوری طرح خالی نہ ہو۔ اور گھروں میں جو کھانا ان سے بچ جاتا ہے اس کو  اپنے گھر میں فریج میں رکھ کر باسی کرتے ہیں یا ڈسٹ بن میں گراتے ہیں لیکن کسی غریب کا نوالہ نہیں بننے دیتے۔

پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے، جس میں بدقسمتی سے زیادہ تر لوگوں کو دو وقت کا کھانا بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے یا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ زیادہ تر لوگ بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں۔  منسٹری آف نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خوراک کی ملکی پیداوار تقریبا 26 فیصد ضائع ہوتی ہے، جس کی سالانہ مالیت تقریباً چار ارب ڈالر بنتی ہے۔

مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر  لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آج کل انسان اتنے بے حس اور بے پرواہ ہو گئے ہیں کہ کسی کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں، اگر دیکھا جائے تو جگہ جگہ پر بچوں کی لمبی قطاریں نان کی دکانوں پر مفت کی روٹی لینے کے لیے لگی ہوتی ہے، کبھی ان کو روٹی مل جاتی ہے اور کبھی یہ لوگ خالی ہاتھ لوٹ کر بھوکے پیٹھ  رہ کر دن گزار لیتے ہیں۔

میں خود اکثر جب گھر سے باہر نکلتی ہوں تو میں نے بوڑھے مرد و خواتین کھانے کے لیے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ کا کھانا جو فریج میں باسی ہو رہا ہے یا کوڑادان میں پھینکا جا رہا ہے اس کے بجاۓ کسی بھوکے شخص کو دے دیا جائے۔

 اس کے علاوہ اکثر جب لوگ کسی ہوٹل میں کسی کے ہاں مہمان بنتے ہیں، شادی بیاہ کا کوئی موقع ہو یا کوئی خیرات ہو تو کچھ لوگ خوراک کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ شاید یہ چیزیں انہوں نے کبھی زندگی میں کھائی ہی نہ ہو۔ سب سے پہلے تو وہ اٹھ جاتے ہیں پلیٹ بھر کر لے آ تے ہیں وہ کھانا پسند نہ آئے تو اس پلیٹ کو بھر کر چھوڑ کر دوسری پلیٹ بھر لیتے ہیں۔

اسی کے ساتھ  پانی کی جو بوتلیں پڑی ہوتی ہے سب کو جوٹھا کر دیتے ہیں۔ شادی کے علاوہ اگر میں ٹریننگز کی بھی بات کروں جو میں بذات خود اکثر اٹینڈ کرتی ہوتی ہوں، اس میں بھی زیادہ تر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہوتے ہیں مگر وہ بھی کھانا بڑے آرام کے ساتھ ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔

ارے ظالموں جتنا کھانا کھا سکو اتنا ہی پلیٹ میں ڈالو کیونکہ جو کھانا پلیٹوں میں رہ جاتا ہے وہ حالانکہ صاف ہوتا ہے لیکن پھر بھی انتظامیہ کے لوگ اس کو ,کوڑا دان میں گرا دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کو چاہیئے کہ ان کھانوں کو ڈسپوزیبل برتنوں میں پیک کر کے غریب بچوں کو دے کم از کم ایسا کرنے سے ڈسٹ بن میں ضائع ہونے کی بجاۓ ان بچوں کا پیٹ تو کسی نہ کسی حد تک بھر جائے گا۔

بذات خود اکثر شادیوں میں نے چھوٹے بچوں کو اور گھروں میں کام کرنے والی خالاؤں کو دیکھا ہے جو میزوں سے جوٹھا کھانا جمع کر کے تھیلیوں میں ڈالتی ہیں۔ میرا دل تو اس وقت اتنا دکھتا ہے اور اسی وقت میں بھی ان کی مدد کر رہی ہوتی ہوں کیونکہ کھانا ضائع ہونے سے تو بہتر ہے کہ وہ لوگ اپنے گھر لے کر جائیں اور کھاۓ۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں  شادی میں کھانا اپنی مقدار سے حد سے زیادہ بنایا جاتا ہے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ شادی میں کھانا کم پڑ گیا تھا کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں لوگ طعنے دینے میں بڑے ماہر ہے۔ آج کل تو فوتگی والے گھر بھی کھانا شادی بیاں کے کھانوں کی طرح پکایا جاتا ہے اور اس ہی طرح ضائع کیا جاتا ہے۔

پرانے زمانے میں کھانوں کا ضیاع بالکل بھی نہیں ہوتا تھا بلکہ جو کھانا بچ جاتا تھا وہ آس پاس کے پڑوس میں تقسیم ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں اتفاق رہتا تھا اور کھانے میں برکت بھی رہتی تھی۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کو معلوم ہے کھانے کو ضائع کرنا گناہ ہے بلکہ ایسے لوگوں کے رزق میں تنگی بھی آ جاتی ہے۔

اکثر بڑوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ پلیٹ کو صاف کرںا چاہیئے کیونکہ یہ سنت نبوی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا نوالہ بھی دسترخوان پر گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیئے، اس بات میں ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ کھانا کسی بھی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔

بحیثیت ایک انسان آب جب بھی کھانا ضائع کرتے ہو تو اس وقت ان غریبوں کا سوچھو جو کھانے کے ایک ایک نوالے کے لیے ترستے ہیں۔ ہمیں خود بھی کھانے کی قدر کرنی چاہیئے اور اوروں کو بھی سکھانی چاہیئے۔ رزق کی ناشکری کرنے والے ایک ایک نوالے کو ترسیں گے کیونکہ اللہ تعالی انسان کو دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button