یہ کیا؟ باپ بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے اور انکے کام کر رہا ہے؟ ماں کہا گئی اسکی۔۔۔۔
سندس بہروز
میری دوست نے ایک روز بات چیت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ان کے خاندان میں اس بات کا رواج نہیں کہ بچے باپ کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ خاص کر بہت چھوٹی عمر کے بچے۔ بچوں کو کھانا کھلانا، اس کو سلانا اور ان کے نخرے اٹھانا تو دور کی بات، باپ بچے کو گھر سے باہر دکان تک نہیں لے کر جاتے کہ کہیں اس کی عادت خراب نہ ہو جائے۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے خاندان کی بڑی عورتیں ماؤں کو ڈانٹتی ہیں کہ بچے کو والد کا عادی مت بناؤ۔ اور اس طرح بڑے ہو کر بھی یہ بچے اپنے والد سے اسی طرح دور رہتے ہیں اور صرف ضرورت کے تحت بات کرتے ہیں کیونکہ بچپن ہی سے ان کو باپ سے دور رکھا جاتا ہے۔
مجھے اس بات کا تعجب اس لیے نہیں ہوا کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کے ہر خاندان اور ہر گھر کی کہانی ہے۔ ہمیں ہمارے والد سے اس قدر دور رکھا جاتا ہے کہ اکثر ضروری باتیں بھی ہم امی کے ذریعے ان تک پہنچاتے ہیں۔ بچپن میں پیدا ہونے والا خلا جوانی تک پر نہیں ہو پاتا۔ اور نہ صرف بچے اور والد میں ظاہری خلا پیدا ہوتا ہے بلکہ باپ کی عدم موجودگی کے باعث بچے کی شخصیت میں نمایاں کمی رہ جاتی ہے۔
سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ بچے کی زندگی میں والد کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہے جتنا کہ والدہ کا۔ ان کے مطابق باپ کا بچوں کی پرورش میں اہم کردار نبھانے کے کافی فوائد ہیں۔ جیسا کہ جن بچوں کے والد ان کی چھوٹی عمر میں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں ایسے بچے تعلیمی لحاظ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایسے بچے مسائل کا حل آسانی سے تلاش کرتے ہیں کیونکہ ان کا آئی کیو زیادہ ہوتا ہے۔ والد کا بچوں کی زندگی میں فعال کردار ان میں خود اعتمادی بڑھاتا ہے جس سے ان کی سماجی نشو نما ہوتی ہے ۔
حالیہ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ والد کے ساتھ بچے کا مضبوط رشتہ بچے کو جوانی میں نشے اور اس جیسی بری عادتوں میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ چونکہ والد بچوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اس لیے بچہ جذباتی طور پر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ نشے وغیرہ کا سہارا نہیں لیتا۔
امریکہ میں کی گئی لیسز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ والد کا بچوں کی تربیت میں فعال کردار ان کی شخصیت کو مضبوط بناتا ہے۔ بچے والد کو دیکھ کر ہی معاشرے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ جیسے کہ بیٹی کے ساتھ اگر والد کا تعلق اچھا ہے تو وہ دوسرے مردوں کے بارے میں بھی ویسی ہی مثبت سوچ رکھے گی۔ اور بیٹے باپ کے رویے سے ہی سیکھتے ہیں کہ ان کو دوسروں کے ساتھ کیسے سلوک روا رکھنا ہے ۔
بچے جب والد کے ساتھ کھیلتے ہیں تو ان میں Aکسیٹوسن کا اخراج ہوتا ہے جس کو ہیپی ہارمون یعنی خوشی والا ہارمون بھی کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن بچوں کے ساتھ والد کھیلتے ہیں ان میں جذباتی مسائل کے پیدا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ وہ اپنے غصے کو بھی قابو کر سکتے ہیں۔
ان سب باتوں سے صاف واضح ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ایک مضبوط شخصیت کا مالک بنیں تو شروع ہی سے اس کو وقت دیں تاکہ وہ معاشرے کے لیے ایک کارآمد انسان ثابت ہو سکے۔