انسان کو جینے کے لیے سہارا نہیں، ساتھ چاہیئے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
سیدہ قرۃالعين
انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور اللہ نے ہمیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے، لیکن ہمیں اکثر ہماری ہی خوبیوں کا پتہ نہیں ہوتا اور ہم کس حد تک بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، کبھی کبھی ہم خود ہی ساری زندگی نہیں سمجھ پاتے۔
ایسے میں کوئی ہونا چاہیئے جو آپ کو یہ احساس دلا سکے کہ آپ بھی بے مصرف اس دنیا میں نہیں آئے ہیں۔ لیکن وہ کون ہوگا، یہ ایک بہت بڑا اور پیچیدہ سوال ہے۔ آج کل کے دور میں جہاں ہر انسان خود ایک دوڑ کا حصہ ہے اور خوبیوں کی تلاش میں بھاگ رہا ہے، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ آپ کو بتا سکے کہ آپ کے اندر کتنی خوبیاں یا صلاحیتوں کا مجموعہ ہے۔
اسی لیے اللہ پاک نے ہمیں بنیادی رشتہ داروں کے ساتھ پیدا کیا ہے، ماں، باپ، بہن، بھائی۔ اور یہ رشتہ وہ رشتہ ہیں جو بغیر کسی لالچ اور کسی مفاد کے آپ سے محبت کرتے ہیں۔ نہ تو ان رشتوں میں کوئی کمی ہے، دوسرا یہ وہ رشتے ہیں جو ہمیں ایک تحفے کی صورت میں ملے ہیں۔
ہم آج کل فیملی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی بات پریشان کر رہی ہو تو ماں باپ یا بہن بھائی کو بتانے کی بجائے ہم کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسا دوست ہو جو ہمارے دکھ درد سن سکے اور وہ دوست یا تو بچپن میں ساتھ تھا یا پھر ہر انسان اپنی زندگی میں اتنا پھنس گیا ہے کہ کسی کے پاس وقت نہیں بچا، باقی کمی موبائل فون نے پوری کر دی ہے۔
کہاں ہے ہمارے پاس وہ قیمتی وقت جو ہمیں صرف فیملی کے ساتھ گزارنا چاہیئے؟ کہاں ہے وہ سچی نصیحت جو صرف ماں باپ ہی کر سکتے ہیں؟ یہ سوچ کہ اپنے ہی آپ کو صحیح نصیحت یا مشورہ دے سکتے ہیں، آج کل پرانی ہو چکی ہے۔ اور ہم اس چیز کو بھول چکے ہیں کہ اپنا خون ہی آپکو اچھی نصیحت یا مشورہ دے سکتا ہے۔
آہستہ آہستہ ہم اپنوں سے دور ہو رہے ہیں۔ جو مشورے ہمیں اپنے دیتے ہیں، وہ ہم اب کسی سے مانگتے ہی نہیں۔ اپنے عقلمند ہونے میں تسلی ملتی ہے کہ ہمیں سب پتا ہے، اور دوست ہمارے زیادہ اپنوں جیسے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلص دوستوں کی اپنی جگہ ہوتی ہے، لیکن جگہ تو ہر انسان کی الگ الگ ہے۔ کوئی بہن بھائی کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی کوئی ماں باپ کی۔
ہمیں اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ دوری ایک دن اتنی لمبی ہو جائے گی کہ جب ہمیں کسی اپنے کی ضرورت ہوگی، اس وقت کوئی بھی نہیں ہوگا ہمارے پاس۔۔۔۔
وقت ایک سا نہیں رہتا اور بہت جلد ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ آج کل بچوں میں اسٹریس اور اینگزائٹی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ہم اپنی تکلیف اپنوں سے بھی نہیں کہہ پاتے۔ ہم نے خود کو ایک قید میں ڈال دیا ہے اور اس قید سے نکلنے کا راستہ ہمیں نہیں معلوم، یا ہمیں لگتا ہے کہ موبائل فون اور وقتی دوست ہمیں اس قید سے نکالیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ بے شک پرانے زمانے میں لوگ ایک دوسرے کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ انہیں رشتوں کی اصل روح کا علم تھا۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا تاکہ آنے والی نسل اکیلی نہ پڑ جائے، تاکہ انہیں اینگزائٹی اور اسٹریس جیسے مسائل لاحق نہ ہوں۔
اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھیں، انہیں وقت دیں، آپ کو بے شمار قیمتی مشورے ملیں گے۔ اپنے بہن بھائیوں کے مسائل حل کریں، ان سے مشورے لیں، ان کی زندگی میں مدد کریں۔ ہمارے اپنے ہمارے پاس ہیں، جنہیں ہم باہر تلاش کر رہے ہیں، وہ صرف نظر کا دھوکہ ہیں، ان کا کوئی وجود نہیں۔