بلاگزعوام کی آواز

کیا صفر کے مہینے میں بھوت پریت اور جنات آسمانوں سے زمین پر اترتے ہیں؟

سدرہ آیان

جب سے انسانی شعور کام کرنا شروع کرتا ہے اور چیزوں کو سمجھنے لگتا ہے تو اسے بہت سی دلچسپ اور حیرت انگیز چیزوں کو ایکسپلور کرتا ہے ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوتا تھا جب ہم ہر کہانی اور فرضی داستان دلچسپی سے سنتے اور یقین کرتے تھے، یہ کہنا ہے مردان سے تعلق رکھنے والی عائشہ نور کا۔

وہ کہتی ہے کہ ایسی ہی کہانیاں ہم نے اپنے بڑوں سے ماہ صفر کے بارے میں بھی سنا ہے۔ میرے بابا کہتے ہیں کہ جب محرم کا مہینہ ختم ہونے لگتا تھا تو میری مرحوم اماں پشتو زبان میں ایسے کہا کرتی تھی کہ ” دا صَفرے میاشت راروانہ دا ”  وہ مہینہ صفر کو جن سے جوڑتی تھی، اللّہ بخشیں وہ کہتی تھی کہ اس مہینے میں ایک جن آتی ہے جسکا نام صفرہ ہے اس وجہ یہ ماہ صفر کہلاتا ہے ۔ اس لیے دادی اماں اپنے بچوں کو اس جن سے ڈارتی اور کہتی تھی کہ اس مہینے میں آپ سب نے سدھر کر رہنا ہے ورنہ وہ جن  آپکو ڈرائے گی ۔

بابا کہتے ہیں کہ والدہ ہمیں باہر جانے سے منع کرتی تھی، وہ کہتی تھی ٹھنڈے کوئلے میں ہاتھ مت ڈالو، شام کو باہر مت نکلو اور درختوں کے نیچے مت کھیلوں اور برتن کو ڈھانپ کر رکھ دو وغیرہ۔

میری مرحوم دادی اماں ماہ صفر کے نام سے جنات کا حوالہ دے کر اپنے بچوں کو سدھارنے کی کوشش کرتی تھی لیکن یہ تقریباً ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔

صفر مہینے کو لیکر جنات کے حوالے سے بہت سی داستان مشہور ہے اس بار مجھے لگا کہ حقیقت اور فرضی داستانوں میں فرق کر سکوں اسی سوچ کو لیکر میں نے ایک مسجد کے امام سے بات چیت کی کہ کیا دین اسلام یا قرآن و حدیث سے کہی پر بھی ماہ صفر اور جنات کے تعلق کے بارے میں کوئی چیز واضح ہوتی ہے یا نہیں۔

تو کوہستان سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا نعمت اللہ نعمانی جو کہ موجود وقت میں چھانگہ گلی کے ایک مسجد میں بطور امام اپنا مذہبی فریضہ انجام دے رہے ہیں، انکا ماہ صفر کے متعلق یہ کہنا ہے کہ دین اسلام اور قرآن و حدیث سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صفر کے مہینے میں جنات زمیں پر اترتے ہیں جس طرح ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ ہمیں بتایا ہے اگرچہ چار مہینے ایسے ہیں جو کہ بابرکت ہیں اور ان مہینوں میں نیکی کرنے کی فضیلت دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ ہے جن میں رمضان ، رجب ، محرم اور ربیع الاول شامل ہیں ۔

امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے بزرگ اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ بچوں کو شام کے بعد اکیلے باہر نہیں چھوڑنا چاہیئے یا برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیئے تو یہ سنت ہے کیونکہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، جیسے کھانے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنا اور شام کے بعد اپنے بچوں کو باہر گھومنے کے لیے اکیلے نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ اس پر اثرات پائے جاتے ہیں کہ یہ بچے ان کے زیر اثر آسکتے ہیں ۔ لیکن ان چیزوں کا ماہ صفر سے کوئی لینا دینا نہیں یہ ساری احتیاطی تدابیر ہر مہینے اور ہر دن اپنانے چاہیئے۔

امام صاحب کی باتیں سن کر میں ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی کہ جو چیزیں ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے تھے تو اکثر ہمیں وہی چیزیں نظر بھی آتی تھی۔ تب میں نے پہلے کئی دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کی کہ جو چیزیں ہمیں نظر آتی تھی کیا انہوں نے بھی کبھی اس چیز کا تجربہ کیا ہے یا نہیں ، ان میں زیادہ لوگوں نے مجھے یہ کہا کہ صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمیں خوف و ڈر اپنے گھیرے میں لے لیتا اور جب بھی وہ اکیلے ہوتے تو کچھ نہ کچھ انہونی واقعہ دیکھنے کو ملتا ۔

ان میں سے بعض لوگوں کو کمرے میں رکھی چیزیں ہلتی نظر آئی تھی، اپنی چارپائی ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، کسی کو اپنی بہن کی کوئی ہمشکل لڑکی کچن میں نظر آتی لیکن جب وہ کمرے میں آتی تو دیکھتی کہ اسکی بہن تو کمرے میں سو رہی ہے ، اور ہر کسی کو الگ الگ مختلف اور دلچسپ واقعات دیکھنے کو ملتے تھے ۔ یہاں میں اس بات پر راضی ہو گئی کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تو یہ سوچ مکمل غلط ہے کہ ماہ سفر میں جنات زمیں پر اترتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اسی مہینے میں ویسی ہی چیزیں نظر آتی تھی کیا یہ ہماری نظروں کا دھوکا تھا ؟ الوژن یا ایمیجنیشن ؟

سلمی یاسمین نامی خاتون کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں ذیادہ مشہور تھا کہ صفر مہینے کے پہلے تیرہ دنوں میں ذیادہ احتیاط کرنی چاہیئے ، اور خاص کر تیرہواں دن منحوس اور بد قسمتی کا دن تصور کیا جاتا تھا ، ان ہی تیرہ دنوں میں جنات اور بھوت پریت آسمانوں سے زمین پر اترتے ہیں اور بچوں، جوان لڑکیوں اور خاص طور پر دلہنوں کی روح پر قابض ہوتے ہیں اسلئے ان دنوں میں کوئی بھی بڑے اور اچھے کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیئے اور ان دنوں کے گزرنے کا انتظار کرنا چاہیئے ۔

سلمیٰ یاسمین کہتی ہے کہ جب انکی شادی ہوئی تو انکی ایک نند تھی جو ماہ صفر میں کالے بکرے کا سر لاتی اور کمرے پر رکھتی انکا یہ ماننا تھا کہ رات کو جنات آکر اسے لے جائنگے اگر انھوں نے بکرے کا سر نہیں رکھا تو جنات رات کو اسے تنگ کرینگے ، سلمیٰ یاسمین کا کہنا ہے وہاں بہت بلیاں اور کتے ہوتے تھے وہ سمجھتی ہے کہ بلّیاں اور کتے وہ بکری کا سر لے جاتے جبکہ انکی نند کو پورا یقین تھا کہ اسکا لایا ہوا بکری کا سر جنات لے کر گئے اور اب وہ اسے تنگ نہیں کرینگے۔

دوسری جانب پشاور سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر فائزہ فضل جو کہ بطور مینٹل ہیلتھ کیس مینیجر انٹرنیشنل میڈیکل کارپس میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہے ان کے سامنے  میں نے کچھ سوالات رکھے۔

ڈاکٹر فائزہ فضل کا کہنا ہے کہ سائیکالوجی کے مطابق انسانی رویے اور میموریز کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔

کانشئیس کا تعلق موجودہ حال سے ہوتا ہے کہ جو بھی ہمیں کہا جاتا ہے  ہمارے ذہن میں سٹور ہوتا ہے جبکہ سب کانشئیس اور ان کانشئیس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ، سب کانشئس کا تعلق ماضی قریب سے ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا ہم نے ابھی ابھی تجربہ کیا ہوا ہوتا ہے۔

جبکہ ان کانشئیس میں وہ یاداشت پائی جاتی ہے جنکا موجودہ وقت اور حالات ہمیں یاد نہیں رہتے لیکن ہمیں وہ کام کرنے سے یاد ہوتے ہیں اور ہم اکثر انھیں پریکٹس کرتے ہیں ۔ تو اس طرح بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہے کہ جب ہم بچوں کے سامنے کہتے ہیں تو وہ باتیں انکے لاشعور نہیں ان کانشیئس میں بیٹھ جاتی ہیں ، اور آگے دور تک وہ بچہ وہی چیز پریکٹس کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ان چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ان کے لاشعور میں سٹور ہوتیں ہیں۔

ڈاکٹر فائزہ فضل اور مسجد امام کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ یہ ساری چیزیں لاشعوری طور پر بچوں کے ذہنوں میں ڈال دی گئی ہے جنکا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ، اگر چہ آج کے ماڈرن اور تعلیمی دور میں بھی ان چیزوں کو پریکٹس کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو پوری طرح ان فرضی داستانوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

Show More
Back to top button