”مہک ایک لفظ ہے، خوشبو ادب ہے”، جین کلاڈیا
رانی عندلیب
خوشبو سب کو پسند ہوتی ہے چاہے وہ پھولوں کی ہو یا پرفیوم کی۔ مختلف قسم کے پھول جیسے گلاب، چنبیلی، للی اورموتیا کی الگ الگ خوشبویں ہوتی ہیں۔ قدرتی خوشبو کی مہک ہر کسی کو پسند ہوتی ہے اس لیے لوگ اپنی پسند کی خوشبو لینا اور اس کو استعمال کرنا بھی پسند کرتے ہے۔
اس حوالے سے مجھے ویلیم شکسپئر کی پرفیوم کے حوالے سے یہ بات یاد آئی، جب انہوں نے ایک غزل میں کہا تھا کہ خوشبو سے یادیں وابستہ ہوتی ہیں اور واقعی ایسا ہی ہے جب بھی خوشبو لگائی جاتی ہیں تو اس سے جڑی اچھی اور غمگین یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح جین کلاڈیا کا کہنا ہے کہ ”مہک ایک لفظ ہے، خوشبو ادب ہے”۔ یعنی کہ اچھی خوشبو ادب سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ انسان کی پیچان بھی ہے اور نام بھی۔
میرے خیال میں دنیا کا کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو پرفیوم استعمال نہ کرتا ہو کیونکہ خوشبو استعمال کرنے کا شوق ہر کسی کو ہوتا ہے تاہم بہت سے لوگ آج بھی خوشبو کو استعمال نہیں کرتے بعض لوگ الرجی کی وجہ سے پرفیوم نہیں لگاتے بعض کہتے ہیں کہ پرفیوم صرف مرد لگاتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پرفیوم بہت مہنگا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں روس اور برطانیہ کے لوگ صفائی پسند نہیں تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ روس کا بادشاہ بھی گندگی کو معیوب نہیں سمجھتا تھا۔ اس طرح اندلس کی ملکہ پوری زندگی میں دو بار نہائی۔ سپین کے بادشاہ نے بھی اپنے ملک میں نہانے پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔
دوسری طرف پورے یورپ کے لوگوں سے سخت بدبو آتی تھی کیونکہ وہ لوگ بلکل نہیں نہاتے تھے۔ نہانے کو کفر سمجھتے تھے پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پورے یورپ میں بدبو پھیل گئی۔ کوئی بھی سانس نہیں لے سکتا تھا۔ یہ ان کی عوام کے نہیں بلکہ بادشاہوں کے قصے ہیں جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے۔ جب لندن اور پیرس کی آبادی 30 اور 40 فیصد تھی تو اسلامی شہروں کی آبادی ایک ملین تھی۔
اس وقت فرنچ پرفیوم بہت مشہور تھے۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ خوشبو لگائے بغیر پیرس میں گھومنا ممکن نہیں تھا، یورپیوں سے لڑتے ہوئے ناک میں گلاب کے پھول رکھے جاتے تھے کیونکہ یورپ والوں سے بہت گندی بدبو آتی تھی۔
پھر پندرھویں صدی میں سپین میں مسلمانوں کی حکومت آئی یہ لوگ سماجی لحاظ سے انقلابی تھے انہوں نے بہت کچھ سپین میں متعارف کروایا۔ پھر مسلمان عرب سے یاسمین کے بیج لائے اور سپین کی زمین میں وہ بیج اگائے ۔ گویا اس سر زمین پر یاسمین کے بیج گرنے کی دیر تھی اور پورا علاقہ یاسمین کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ یوں وہاں پر خوشبو نے جنم لیا اور آہستہ آہستہ یورپ سے بد بوختم ہوئی ۔
اگر پاکستان کی بات کرے اور خاص کر خیبر پختونخوا کی تو لوگ خوشبو کے حوالے سے زیادہ واقف بھی نہیں ہیں۔ وہ خواتین اور مردوں کے پرفیوم میں بھی فرق نہیں کر سکتے۔ اس طرح اکثر لوگوں کو خوشبو کی پہچان بھی نہیں اس وجہ سے وہ سستے پرفیوم مہنگے داموں خریدتے ہیں لیکن جب پرفیوم گھر لایا جاتا ہے تو اسکی مہک بہت جلد اڑ جاتی ہے۔
گرمیوں میں پرفیوم کا استعمال زیادہ ہوتا ہے لوگ کام پر جانے سے پہلے صبح نہا کر پرفیوم لگاتے ہیں، لوگ دیر پا خوشبو کو پسند کرتے ہیں کیونکہ گرمیوں میں پسینے بہت آتے ہیں اور انسان جہاں پر کام کرتا ہو تو پھر اچھا نہیں لگتا کہ انسان سے پسینے کی بو آئے۔ کیونکہ یہ اس کی شخصیت پر برے اثرات ڈالتا ہے۔
خوشبو کے بارے میں لوگ بہت محتاط ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ ایسی خوشبو کم استعمال کرتے ہیں جس کی مہک ایک گھنٹے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ہم مہنگے پرفیوم خریدتے ہیں پھر بھی اس کی خوشبو جلد ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن درحقیقت اس کا انحصار پرفیوم کے مہنگے ہا سستے ہونے پر نہیں ہوتا ہے۔
ضروری نہیں کہ جو خوشبو اچھی ہو وہ مہنگی بھی ہو۔ یہ انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے کون سی خوشبو پسند ہے۔ بہت سے لوگ اپنے لیے مختلف خوشبو خریدنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تحفے میں دینا پسند کرتے ہیں۔ لیکن جب خوشبو اچھی ہو اور اس کی قیمت لاکھوں میں ہو تو پھر ہر کوئی خود تو اسے استعمال کرنے کی خواہش کرے گا لیکن کبھی دوسروں کو بطور تحفہ دینے کا نہیں سوچے گا۔