ریڈیو کے سنہری دور سے سوشل میڈیا کے عہد تک، بچپن کی موسیقی کی یادیں اور جدید دور کا سحر
سلمی جہانگیر
”مندیزی چارسدہ سے فضل قادر نے ہمیں یاد کیا ہے اور نور جہاں کے گانے کی فرمائش کی ہے اور انکے ساتھ ہیں عنائت اللہ وسیع اللہ چھوٹی شگفتہ اور چھوٹا عالمگیر ۔ تو آئیے سنتے ہیں انکی فرمائش کا یہ خوبصورت نغمہ”. اور نغمہ سننےکے بعد ہم سنتے کہ یہ پروگرام آپ ریڈیو پاکستان سے میڈیم ویو پر سن رہے ہیں ۔
جب ہم سکول سے گھر آتے تو ریڈیو کی یہ آواز مختلف گلیوں سے گونجتی اور ان نغموں اور پروگرامزکے سننے کا الگ ہی مزا ہوتا اسی طرح رات کو میری والدہ ریڈیو پر ایک اور پروگرام جو کہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتا، جو کہ پشتو زبان میں ہوتا، ہم سب سنتے اور اسکا مزا گرمیوں اور سردیوں دونوں میں بہت آتا جب ہم دور کے پہاڑی گاوٴں خالہ کے گھر جاتے وہاں بجلی تو ہوتی نہیں تھی بس شام کا کھانا جلدی کھا کر سب اپنی چارپایئوں پرلیٹ جاتے چونکہ پہاڑی علاقوں میں شام ہوتے ہی ہر سو خاموشی چھا جاتی ہے تو اس وقت ریڈیو کی آواز دور دور تک صاف سنائی دیتی ہے۔
اور آل انڈیا ریڈیو دہلی کا یہ پشتو پروگرام ہم آنکھیں بند کر کے سنتے۔ رہندر سواتی کے اس پروگرام میں فرمائیشی نغمات سننے کے لیے میرے چا چا بھی خط لکھتے اور جب اس خط کو پڑھ کر ہمارے نام پکارے جاتے تو دل کو جو خوشی ملتی اسکا کوئی پیمانہ نہ تھا۔
آہستہ آہستہ زمانہ بدلہ اور ایف ایم کا دور آگیا موسیقی بھی جدید ہوگئی۔ اب خط کا متبادل ایس ایم ایس کی صورت اختیار کرگیا پھر لوگ اپنی فرمائش ایک موبائل پیغام کے ذریعے بھیجتے اور نغمات کی فرمائش ہوتی۔ ایف ایم ریڈیو کی خاص بات یہ تھی کہ اسکی آواز صاف ہوتی اورجس وقت پیغام بھیجتے اسی وقت موصول ہوتا۔
ہر طرح کی موسیقی سے لوگ محظوط ہوتے اور موبائل فون پر بھی چلتے چلتے ایف ایم سنتے، وقت بدلا اور تیزی سے بدلا سوشل میڈیا آگیا اور ریڈیو کا زوال شروع ہوا۔ اب نا فرمائیش کی ضرورت تھی اور نا ہی خط لکھنے اور میسج کی ۔بس جسکا جو جی چاہے اور جس وقت تو اپنی پسند کے نغمات بلا کسی خراب آواز اور تعطل کے سن سکتے ہیں۔
لیکن اب وہ مزا نہیں رہا جو ہم بچپن میں فرمائشی گانے سن کر لیتے تھے ہمیں پورا ہفتہ اپنے پروگرام کا اور خاص طور پر اپنے خط کے سننے کا انتظار ہوتا جس میں ہمارے نام پکارے جاتے اور وہ بھی کسی دوسرے ملک سے نشر ہونے والے پروگرام میں ہوا کرتے تھے۔
آجکل سوشل میڈیا اور یوٹیوب کی وجہ سے کسی بھی وقت کہیں بھی ہم اپنی پسند کے نغمات سن سکتے ہیں لیکن اب اتنا مزہ یا موسیقی سے ہم اتنا لطف نہیں اٹھاتے جتنا بچپن میں ہوا کرتا تھا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے جہاں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اوردنیا میں نئی چیزیں متعارف ہو رہی ہیں اسکے ساتھ ساتھ پرانی چیزوں کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سے باخبر نئی نسل ہمارے زمانے کی ان باتوں سے مکمل طور پر انجان ہیں۔
دنیا ترقی کررہی ہے ہر روز کوئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے لیکن میرے نزدیک یہ سب میرے بچپن کی ایجادات کی خوبصورتی کو ماند نہیں کر سکتی کیونکہ تب سکون تھا، خاموشی تھی، ہر چیز کی قدر و قیمت تھی جبکہ آجکل ہر طرف ایک دوڑ لگی ہے۔