ڈرامہ زرد پتوں کا بن، معاشرے کا عکاسی یا پھر تخلیقی سوچ
رانی عندلیب
ڈرامہ زرد پتوں کا بن ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔ اس ڈرامے میں سجل علی مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر کہا جائے کہ مینو کا کردار سجل علی نے بہت ہی خوب نبھایا ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس نےاداکاری ایسی کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف مینو کا نہیں سماج کی ہر اس لڑکی کا کردار ہے جو بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن معاشرہ رنگ بدل بدل کر اس کی زندگی عذاب یا موت بنا دیتا ہے، ڈرامے میں سماجی جنگ کے ساتھ ساتھ کچھ خوشیاں اورکچھ مشکلات ہیں جن کا سامنا بھی مینو کو کرنا پڑے گا۔
اس ڈرامے میں سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، جو ہمارے خود کے مسائل ہیں۔ جن کے بارے میں تو بات سب ہی کرتے ہیں مگر اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی کوئی نتیجہ نکل رہا ہے اس میں آبادی کا بڑھتا ہوا رحجان، وسائل کی کمی، لڑکیوں کی تعلیم، لڑکوں کی تربیت، پڑھے لکھے جاہل لوگوں کی فرعونیت، جبکہ ایک طرف شہر میں داکٹرز کا مافیاں، تو دوسری طرف گاؤں میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی۔ ان تمام مسائل کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے پیش کی گئی ہے۔
مرکزی کردار مینو پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے جو ایک محنتی، پرعزم، مستقل مزاج، سمجھدار و ذہین دیہاتی لڑکی ہے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے گاؤں میں اور آس پاس کوئی ہسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہے حتی کہ کوئی ہائی سکول و کالج نہیں ہے۔ مینو کے بھائی نکمے ، کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں ڈرامہ میں زیادہ بھائیوں کی اکلوتی بہن بہت لاڈلی ہوتی ہے، لیکن اس ڈرامے میں اصل تصویر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ بھائیوں کی بہن اپنی زندگی جینا چاہے تو اس کو عام لڑکی کی نسبت بہت زیادہ اور مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مینو کے بھائی اس سے حسد کر کے آگے بڑھنے نہیں دیتے۔
مینو کا رشتہ آتا ہے، پہلے تو وہ نہیں مانتی کہ اسے آگے پڑھ کرڈاکٹر بننا ہے مگر پھر وہ راضی ہو جاتی ہے مگر اسے اپنے ہونے والے شوہر سے علیحدگی میں بات کرنی ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی بچہ پیدا کرے گی۔ اس پر وکیل کا منشی اس کو بد کردار کہہ کر چلا جاتا ہے کہ لڑکی تو بہت خراب ہے اور شادی سے پہلے گندی باتیں کرتی ہے۔
ایک عورت خود کتنی اولاد پیدا کرنا چاہتی ہے؟ وہ اولاد پیدا کرنے والی مشین نہیں بننا چاہتی۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کر سکتی ۔وہ اتنی خود مختار نہیں۔ وہ بیماریوں کا گھر بن کر مرنا نہیں چاہتی ہے بلکہ باوقار زندگی جینا چاہتی ہے۔ اس کو شعور ہے کہ وسائل کتنے ہیں اور اس کے مطابق اولاد کتنی ہونی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں اگر مرد ایسی باتیں جیسے کہ اپنی مرضی سے شادی، بچے، نوکری، اگر چاہے تو اپنی مرضی سے ایک گھر میں رہے ورنہ الگ رہتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا نہیں لیکن کثرتِ اولاد بھی مرد کی مرضی سے ہوتی ہے بیٹے کی تمنا بھی مرد کرتے ہیں اور اسی کی خاطر مرد دوسری شادی بھی کرتا ہے۔
اس ڈرامے میں دیہات کے ساتھ ساتھ دوسری کہانی شہر میں ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال کی ڈاکٹرز مافیا کی چل رہی ہے، جس میں ایک مریضہ کو بچے کی پیدائش کے دوران دوا کی اوور ڈوز دے دی جاتی ہے، جس سے ان کا انتقال ہو جاتا ہے اور ایک دن بعد بچہ بھی دم توڑ دیتا ہے،جو کہ عام زندگی میں بھی ایسی ہی واقعات آئے دن چلتے رہتے ہیں۔
یہ ڈرامہ کشف فاؤنڈیشن اور مومنہ درید پروڈکشن کی مشترکہ پیشکش ہے۔
اس ڈرامے میں پنجاب کے دیہات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا جارہا یے۔