بلاگزعوام کی آواز

ناپ تول میں کمی کر کے کیسے راتوں رات خزانہ جمع کیا جا سکتا ہے؟

نازیہ

گزشتہ دنوں میں فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی جو پشاور کے ایک بندے نے ناپ تول میں کمی سے متعلق عوام کے لیے بنائی تھی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ یہ آدمی آۓ روز یہ کام کرتا ہے تو کیوں نہ عوام کو اس آدمی کی اصلیت بتائی جائے، سیب کی ایک ریڑی ہوتی ہے جس کے ارد گرد چار پانچ لوگ کھڑے ہوتے ہیں یہ آدمی بظاہر تو سب کو صحیح  وزن میں سیب دیتا ہے لیکن جیسے ہی تھیلے میں ڈالنے کی باری آتی ہے تو یہ ہر ایک کے تھیلے میں سے ایک یا دو سیب نیچے گراتا ہے۔ یہ بندہ اپنے کام میں اتنا ماہر ہو چکا ہے کہ بڑی ہی آسانی سے اپنے گاہکوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر ان کے خون پسینے سے کمائے ہوئے پیسوں کو آسانی سے بٹور لیتا ہے۔

دیکھنے والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہمارے ساتھ اس نے کیا کیا ہے۔ لیکن کیا ہوا اگر اس بندے نے نہیں دیکھا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ بظاہر تو اس آدمی کی لمبی داڑھی اور اونچے پائنچے تھے جس کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے کہ یہ بہت ہی ایماندار شخص ہے۔

مہنگائی کا دور ہے غربت ہے اور اوپر سے ناپ و تول میں یہ بے انصافی آخر ان غریبوں کا بنے گا کیا۔ محض یہ ایک آدمی نہیں ہے بلکہ آدھے سے زیادہ دکاندار، تاجر اور ریڑی بان منافع خوری کے چکر میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ اپنے ایمان اور آخرت کی پرواہ کیے بغیر ناپ تول میں کمی کر رہے ہیں۔ خود غرضی اور حرص نے انسانوں کے دل اس قدر سخت کر دیئے ہے کہ کوئی بھی گناہ کرتے وقت اس کے نہ تو ہاتھ رکتے ہیں اور نا ہی دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے۔ ناپ و تول میں کمی اس قدر سنگین گناہ ہے کہ اگر آپ کو یاد ہو تو حضرت شعیب علیہ السلام کے قوم پر ناپ و تول میں کمی کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوا تھا جس سے پوری قوم تباہ ہو گئی تھی۔

اسلام نے تو ہمیں دیانتداری، انصاف، چیزوں کو پورا تولنے اور دھوکہ دہی سے سختی سے ممانعت فرمائی ہے تو پھر ناپ تول میں کمی کرتے وقت ان کے ہاتھ کیوں نہیں کانپتے۔ ان بدبختوں کو یہ نہیں پتہ کہ اس طرح کرنے سے نہ تو کاروبار میں برکت ہوگی اور نہ ہی لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔ حرام کی کمائی سے یہ برکت اس قدر اڑ جاتی ہے کہ ان کو یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ یہ پیسہ آیا کب اور گیا کب۔ اگر ان بدبختوں کو یاد ہو تو ناپ تول میں کمی کرنا اصل میں چوری کرنا ہے۔

اب آپ خود بتائیں جب یہ دکاندار یا تاجر جب کسی گاہک کو کوئی چیز پورے پیسوں کے بدلے میں کم دے رہا ہے تو یہ چوری ہوئی کہ نہیں؟ جی ہاں بلکل چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ بھلا ہر وہ چیز جو حرام کی کمائی کمائی سے خریدی گئی ہو اس میں کوئی برکت یا کوئی مزہ ہوگا۔

آئے روز ان دکانداروں، ریڑی بانوں اور تاجروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں لیکن چیک اینڈ بیلنس کمزور ہونے کی وجہ سے اگلے روز وہی دکانیں کھلی رہتی ہے اور حرام کی کمائی بڑے مزے سے جاری ہوتی ہے۔ جب دل و دماغ  میں حرص و خیانت ہو تو انسان کو پھر ڈر کس چیز کا، انہوں نے حرام کا اتنا کمایا ہوتا ہے کہ اگر ان پر چھاپا وغیرہ پڑتا بھی ہے تو ادھر ادھر کچھ پیسے دے کر دوبارہ سے اپنی حرام کی کمائی شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایسے سخت سے سخت قوانین بنائیں کہ اگر کوئی ناپ تول میں کمی کرتا ہے تو ان کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ اور لوگ بھی اس سے سبق حاصل کر سکے اور عوام کے پیسے کے ساتھ کھیلنا ختم ہو جاۓ۔

ہم لوگ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں آخر اس ملک کا بنے گا کیا کہ اگر ایک باپ ناپ و تول میں کمی کر کے حرام کا کما رہا ہے تو اس کے بچے بھی اپنے باپ سے یہی حرام کی کمائی سیکھیں گے اور یوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بحیثیت ایک مسلمان ملک یہ چیزیں ہمیں زیب نہیں دیتی بلکہ ہم مسلمانوں کو ان چیزوں سے اپنے آپ کو اور اوروں کو بھی سختی سے منع کرنا چاہیے۔

آخر میں بس اتنا کہوں گی کہ غربت ہے مہنگائی ہے غریب کے اس پیسے کے ساتھ نہ کھیلے جو اس نے خون پسینہ ایک کر کے کمایا ہو۔ جب تک ایک دوسرے کے حقوق کی حق تلفی ہوگی حرام کی کمائی ہوگی اور دھو کا دہی ہوگی اس معاشرے میں سکون کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ خرید و فروخت کے معاملے میں دھوکا دہی اور خیانت سے بچنا چاہیۓ تاکہ پیسے میں برکت ہو اور آخرت کے عذاب سے بھی بچ سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button