گرمی کی شدت اور بچوں کی خراب ہوتی صحت، آخر کونسی احتیاتی تدابیر اپنائی جائے؟
سندس بہروز
گرمی کی شدت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کو دیکھو گرمی کو کوس رہا ہے اور اگر بارش ہو جائے تو واپڈا والوں کی بلا وجہ کی لوڈشیڈنگ سے الگ پریشانی بڑھ جاتی ہے۔
تو ہر جگہ واپڈا والوں کو برا بھلا کہا جا رہا ہیں۔ کیونکہ قدرت کے ساتھ تو کچھ نہیں کر سکتے مگر انسان پر تو بس چلتا ہی ہے۔ جیسے جیسے گرمی کی شدت بڑھتی جا تی ہے ویسے ہی بجلی بھی غائب ہوتی جاتی ہے اور پھر لوگوں کے پاس گرمی سے چھٹکارا پانے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
جب گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو بڑوں سے زیادہ بچوں کی حالت خراب ہوتی ہے کیونکہ بڑوں کی نسبت بچوں کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے بھی ہیں کہ بچوں کو گرمی لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
دھوپ میں زیادہ نکلنے کی وجہ سے بچوں کو اکثر گرمی دانے نکل آتے ہیں جن کی خارش سے بچے تنگ ہوتے ہیں۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے بچوں کی آنکھیں سرخ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس سے آنکھوں میں خارش ہونے لگتی ہے اور جب بچہ آنکھوں کو مسلتا ہے تو اس سے آنکھوں کی سرخی کے ساتھ ساتھ تکلیف میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
گرمی کی شدت میں اضافے کی صورت میں بچوں میں چڑچڑا پن آجاتا ہے جس کی وجہ اکثر ماؤں کو سمجھ نہیں آتی کیونکہ تین سال سے کم عمر کے بچے اپنی تکلیف صحیح الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے۔ گرمی کی وجہ سے بچے صحیح سے آرام نہیں کر پاتے اور ان کی نیند پوری نہیں ہوتی۔ ان میں یہ چڑچڑا پن ان کی بے آرامی کی وجہ سے آتا ہے۔
کچھ بچوں سے پسینہ بہت زیادہ خارج ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم میں پانی کی کمی ہو سکتی ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ بچوں کو گرمی میں زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں ۔ پانی میں چینی اور نمک ملا کر بچوں کو دینا چاہیئے تاکہ ان کے جسم میں نمکیات کی کمی نہ ہو۔ یہ نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ بڑوں کے لیے بھی مفید ہے۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پیتا ہے تو ماں کو چاہیئے کہ زیادہ گرمی میں بچے کو بار بار دودھ پلائیں تاکہ بچے میں پانی کی کمی نہ ہو۔
چونکہ بچہ اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر سکتا اس لیے ماں کو چاہیئے کہ گرمی میں بچوں کو ہوادار کمرے میں رکھیں اور دھوپ میں زیادہ نہ کھیلنے دیں۔ دن میں کم از کم ایک بار بچے کو ضرور نہلائیں تاکہ اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل رہے۔
گرمی میں بچوں کو زیادہ چست کپڑے نہ پہنائیں بلکہ ہلکے پھلکے کپڑوں کا استعمال کریں۔ کھلے اور ہوادار کپڑوں میں ملبوس بچوں کو گرمی لگنے کا خطرہ کم رہتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ ہر سال گرمی کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے درختوں کی کٹائی کی شرح درخت لگانے کی شرح سے کم نہیں ہو رہی۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی میں زیادہ قصور ہمارا بھی ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم درختوں کی زیادہ سے زیادہ کاشت کریں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ایسے درخت لگائیں جو جلدی بڑے ہوتے ہیں اور ماحول میں خاطر خواہ آکسیجن پیدا کر کے گرمی کو کم کرتے ہیں۔ تاکہ نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کو بھی گرمی سے پناہ مل سکیں۔