ساون اور بھادوں جب برستے تھے تو ہر طرف جل تھل ہوجاتا، مگر اب کیوں نہیں
نثار بیٹنی
میں نے اپنی خالہ کی طرف دیکھا اور ایک سوال ذہن میں آیا، پوچھا خالہ جان جب میں چھوٹا تھا تو آپ اور آپ جیسی دیگر بڑی عمر کی خواتین جب کبھی اکٹھے بیٹھ کر باتوں کی لمبی نشستیں سجایا کرتی تھیں تو اکثر آپس کی بات چیت میں کہتی تھیں کہ ساون اور بھادوں جب برستے ہیں تو ہر طرف جل تھل ہوجاتا ہے اور پیاسی زمین کی پیاس بجھ جاتی ہے اور یہ کہ ساون اور بھادوں زندوں پر بھی برستے ہیں اور مردوں پر بھی، لیکن خالہ جان پچھلے 15 سال سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے مجھے تو ساون اور بھادوں میں ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ جم کر برسنا تو دور کی بات، اس مہینے میں تو ہر وقت گرمی، حبس اور پسینہ ہی پسینہ ہوتا ہے آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہ دو مہینے بارشوں کے سسٹم برسانے والے سب سے اہم مہینے ہوتے تھے۔
خالہ نے میری طرف دیکھا اور ہنس کر کہا کہ بیٹا جب ہم جوان تھے تو شاید اس وقت ساون اور بھادوں کی بھی جوانیاں ہی چل رہی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دو ماہ ایسے برستے تھے کہ پورے سال کی پانی کی ضروریات پوری ہوجاتیں اور زمین کی پیاس بجھ جاتی. مزید لقمہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ھاڑ کی 15 یا 20 تاریخ ہوجاتی تو محلے کی ساری عورتیں اکٹھی ہوکر قریب کی نہر سے چکنی گیلی مٹی لے آیا کرتی اور اس مٹی کو مزید پانی ڈال کر پتلا کردیا جاتا اور ضائع شدہ کپڑے کے پونچے سے کمروں کی دیواروں پر لیپا پوتی کی جاتی، دیہاتی خواتین اسے "چوپا” کہتے تھیں جبکہ پشتو میں اسے "پولیے” کہتے ہیں۔
محلے کی ساری عورتیں باری باری ایک دوسرے کے گھر میں روزانہ آتیں، ایک ایک کمرے سے تمام سامان نکالتیں اور پورے گھر کے کمروں کی دیواروں کو چکنی مٹی کا پونچا لگا کر صاف ستھرا کرتیں۔ اس طریقہ سے دیواروں پر لگی دھویں کی کالک، مکڑی کا جالا اور پوسیدگی صاف ہوجاتی اور دیواروں کا نیا رنگ نکل آتا۔ خدمت خلق اور پڑوسنوں کی محبت سے سرشار ان خواتین کے اس فلاحی کام کے دوران آوبھگت بھی جاری رہتی اور میزبان خواتین ان پڑوسی خواتین کے لئے کھانا تیار کرتیں جبکہ چائے اور لمبی گفتگو کا دور تو سارا دن ہی چلتا رہتا۔
ہم خواتین ضائع شدہ کپڑوں سے پونچا بناکر دیواروں پر لیپائی(چوپا) کرکے بعد میں ہر کمرے کے فرش پر مٹی اور بھوسے کے گارے سے لیپائی کرتیں اور کمروں کے کچے فرش درست اور صاف ستھرا کرکے کمرے میں موجود چھوٹی موٹی سوراخوں کو مٹی اور اینٹ کے ڈھیلوں سے بند کر دیا کرتیں تاکہ سانپ، بچھو اور دیگر نقصان دہ حشرات الارض باہر نا آسکیں۔
میری 70 سالہ بوڑھی خالہ نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ بیٹا ھاڑ کے دنوں میں روزانہ ایسا ہر گھر میں ہوتا تھا اس سلسلے میں پورے محلے میں منادی کرادی جاتی اور یہ منادی عصر اور شام کے وقت گھر کی چھوٹی بچی یا بچے کو پورے محلے کے گھروں میں بھجوا کر کی جاتی اور باری باری ہر گھر کی بزرگ خاتون سے کہا جاتا کہ کل ہمارے گھر میں صفائی ستھرائی، دیواروں کی لیپائی اور کمروں کے فرش کو گارے سے بنانے کا پروگرام ہے اس کے ساتھ ساتھ تمام خواتین کے لیے کھانے کا بھی پروگرام ہے، آپ سب خواتین نے آنا ہے۔
دیہی خواتین کی اس رضاکارانہ خدمت کے دوران ہر گھر کے مرد حضرات روزانہ قریب کی زمینوں سے چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں اور لکڑیاں کاٹ کر گھر لایا کرتے اور جمع کرتے کیونکہ پورے گاؤں کو یہ امید ہوتی کہ ساون کے پہلے ہفتے سے بارشوں کا وہ سلسلہ شروع ہوگا جو پورا ایک ہفتہ جاری رہے گا۔ اسے عرف عام میں ساون کی جھڑی کہا جاتا تھا جو عموما جمعرات سے شروع ہوکر اگلے جمعرات تک جاری رہتا۔ چونکہ ساون اور بھادوں حبس اور گرمی کا مہینہ ہوتا تھا تو ایسے میں اگر بارشیں برس پڑتیں تو زمین کے اندر سے مختلف حشرات الارض جیسے سانپ، بچھو، مینڈک، چیونٹیاں اور دیگرجاندار نکل پڑنے کا خطرہ ہوتا اس لیے گھر کے کمروں اور صحنوں میں موجود سراخوں کو مٹی کے ڈھیلوں، اینٹ کے ٹکڑوں اور چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے بند کر دیا جاتا۔
میری خالہ نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے کہا کہ عموما ساون اور بھادوں میں بارشوں کا سلسلہ ساون اور بھادوں کے پہلے ہفتے سے شروع ہوتا بادل نخواستہ اگر ساون کے پہلے ہفتے میں یہ سلسلہ شروع نا ہوتا تو امید ہوتی کہ آخر میں ضرور شروع ہوگا ورنہ بھادوں تو کہیں نہیں گیا اس مہینے بارش آ ہی جائے گی۔ ساون اور بھادوں میں ہونے والی انہی بارشوں کی وجہ سے ہر سال بھادوں کی 15 تاریخ سے راتیں ٹھنڈی ہونا شروع ہوجاتیں جبکہ دن معتدل ہونا شروع ہوجاتا لیکن اب وہ بارشیں خواب ہوگئیں۔
اب تو خون کے رشتوں، دوستوں اور عام انسانوں کے ساتھ ساتھ موسم اور بارشوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں رہا، اس حوالے سے ڈی آئی خان کے معروف شاعر و ادیب سید حفیظ گیلانی سے پوچھا کہ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ماضی بعید اور ماضی قریب میں فلمی اور غیر فلمی شعرا کرام نے اپنی شعروں میں ساون اور بھادوں کا کثرت سے ذکر کیا ہے، جب بھی محبوب کا انتظار ہوتا تو ساون کی آمد کا حوالہ دیا جاتا۔
‘ساون آئے ساون جائے، تم کو پکارے گیت ہمارے’،
تو کبھی یہ گیت گایا جاتا،
"ساون آیا تم نہیں آئے،
ایسے ہی مناظر پر عموما جو گیت لکھے جاتے اس میں ساون یا بھادوں کا ذکر ضرور ہوتا، جب بھی محبوب کو پکارا جاتا تو ساون ہی کے مہینے کا حوالہ دیا جاتا آخر ان مہینوں میں ایسی کیا خاص بات تھی یہ مہینے تو سخت ترین گرمی اور حبس کے مہینے ہیں، ان دو مہینوں میں پڑنی والی گرمی اور حبس لوگوں کو جیٹھ اور ھاڑ کی گرمی بھلا دیتے تھے۔ پھر ایسی کیا خاص بات تھی کہ شاعر انہی مہینوں کو اپنے احساسات اور جذبات کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تو سید حفیظ گیلانی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ساون کا مہینہ جیسا آج کل ہے ماضی میں بالکل ایسا نہیں تھا ہماری جوانی کے زمانے میں جب ساون برستا تھا تو ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا، خورد رو جڑی بوٹیاں نکل آتیں، باغوں میں گلاب، چمبیلی کے پھول کھل پڑتے، درختوں کی کونپلیں نکل آتیں، ہواوں میں پرندے رقص کرتے اور مدھر آواز میں چہچہاتے جبکہ گاؤں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں درختوں پر جھولا جھولنے کے لیے کھیتوں اور باغوں کا رخ کرتے۔
چونکہ ساون اور بھادوں میں بارشوں سے ہوا معتدل ہوجاتی اور جھولا جھولتے ہوئے ایک خوشگوار احساس ہوتا لہذا جھولا جھولتے ہوئے لبوں پر بے اختیار شعر آمڈ آتے اور یقینی بات ہے جب موسم ابرآلود ہو، آس پاس سبزہ اگا ہو اور درختوں پر پرندے چہچہارہے ہوں تو لازمی ہے کہ زبان سے شعر ہی نکلیں گے جو آس پاس کے ماحول کی بھرپور عکاسی کرتے ہونگے۔
سید حفیظ گیلانی نے کہا کہ آج سے 30/35 سال پہلے ساون اور بھادوں کا الگ ہی رنگ تھا جب یہ دونوں مہینے برستے تھے تو لوگوں کے چہروں پہ خوشیاں کھل جاتیں، کھیتوں میں ہریالی آجاتی، گھروں میں نت نئے پکوان پکتے اور لوگ کھیتوں کی طرف نکل کر کھیتوں کو پانی لگانے کے بعد کبڈی، گلی ڈنڈا، ٹیپو گرم کھیلنے لگ جاتے اور جھولا جھولتے ہوئے گنگناتے رہتے۔ جبکہ لڑکیاں ڈبری اور رسا ٹاپ کھیلتیں، انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی،جنگ و جدل اور انجن و مشینری کے بے دریغ استعمال نے اس کائنات کے قدرتی حسن کو گہنا دیا ہے اور خوبصورت مہینوں کا فطری مزہ کرکرا کردیا ہے۔
اب نہ وہ ساون رہا اور نہ وہ بھادوں رہی جبکہ سردیاں بھی سردیاں نا رہیں، سردی میں سردی کا احساس نہیں ہوتا گرمی میں گرمی کی حدت حد سے بڑھ جاتی ہے۔ جیٹھ، ھاڑ اور ساون کے وہ مہینے ہوا ہوئے جب لوگ اہتمام کے ساتھ پکوان پکا کے اور موسمی پھل لا کر ان سے لطف اندوز ہوتے، لوگ کہتے ہیں کہ دنیا عروج پر پہنچ گئی ہے لیکن میرا نظریہ ہے کہ دنیا نے اپنا اصل، اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کھو دیا ہے۔
دیہاتوں کا ماحول دیہاتی نہیں رہا جبکہ شہری تو ویسے بھی افرا تفری کا شکار ہو گئے ہیں ہر انسان مشین بن کر کولہو کے بیل کی طرح کام کررہا ہے، کسی کو نہ دن کا پتہ ہے اور نہ رات کی خبر، اس کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق انسان جو دیہات کے چوکوں اور بیٹھکوں پر بیٹھ کر سیف الملوک، لیلی مجنوں، آدم خان درخانئی، یوسف خان شیربانو، سوہنی مہینوال اور ہیر رانجھا کے قصے سنایا کرتا تھا آج وہ موبائل کی چھوٹی سی سکرین میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔