بلاگزتعلیمعوام کی آواز

حصول تعلیم کیلۓ عمر کی کوئی قید نہیں

آمنہ سلارزئی

آج میں آپ سب کو بڑھتی ہوئی عمر میں حصول تعلیم کے سلسلے میں تاریخ رقم کرنے والا ایک حیران کن کارنامہ بتاتی ہوں، جی ہاں میں بات کر رہی ہوں ورجینیا ہسلوپ نامی 105 سالہ عمر رسیدہ امریکی خاتون، جس نے 83 سال کے عرصے کے بعد ماسٹر کی ڈگری مکمل کرلی۔ امریکی رہائشی خاتون ورجینیا ہسلوپ نے سن 1940 میں  امریکہ میں مقیم سٹینفورڈ یونیورسٹی سکول آف ایجوکیشن سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

ورجینیا ہسلوپ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے اسی ہی یونیورسٹی میں  پڑھنا شروع کیا تھا لیکن اس وقت دوسری جنگ عظیم میں ان کےمنگیتر کو خدمات سر انجام دینے کیلئے بلا لیا گیا، جسکی وجہ سے دونوں کو شادی کرنا پڑی اور فائنل تھسیز جمع کروانے سے پہلے ہی یونیورسٹی کو چھوڑنا پڑا اور یوں دوسری جنگ عظیم کے پیش نظر ورجینیا ہسلوپ کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔

اب کئی دہائیاں گزرنے کے بعد  انہوں نےحال ہی میں( 2024 ,جون 14) کو سٹینفورڈ یونیورسٹی آف ایجوکیشن سے  گریجویشن تقریب کے موقع پر "ماسٹر ان ایجوکیشن ” کی ڈگری حاصل کی۔ تقریب کے دوران وہ اپنی خواہش کی تکمیل پر کافی خوش دکھائی دی اور اپنے تقریر میں کہا کہ "میں نے اس کیلئے بہت عرصہ انتظار کیا ہے، یہ ڈگری میرے کئی سالوں کی محنت کا تخمینہ ہے” اور واقعی یہ انکی زندگی کا ایک بہترین لمحہ تھا۔ اسں  سے  ہم نے یہ بھی  سیکھا کہ علم حاصل کرنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں اگرچہ بندے کی عمر سو سال سے ہی تجاوز کیوں نہ کرے۔ اگر انسان کے اندر علم و کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ ہوں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔  تعلیم کے بنیاد پر ہی انسان اور حیوان میں فرق کیا جاتا ہے،اور انسانوں میں شعور لاتا ہے۔  کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری عمل ہوتا ہے, تعلیم  ہی قوموں کی قسمت بدلتی ہے۔ معاشرتی امن اور خوشحالی تعلیم ہی کی بدولت ممکن ہے۔ دنیا میں دیگر ممالک تعلیم کے میدان میں بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں, جبکہ ہمارا ملک اس جدید دور میں بھی کافی حد تک حصول تعلیم بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ تعلیم کی بدولت روزمرہ کی زندگی میں بہت سی اسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ تعلیم کے بغیر کسی بھی ملک سے غربت بدامنی اور بے روزگاری جیسے مسائل کا خاتمہ ناممکن ہے ۔

ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اگر ایک مخصوص مدت میں تعلیم حاصل کی تو ٹھیک ورنہ بہت سے لوگ  تعلیم ادھوری ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو کتنے زیادہ لوگ چند سال وقفہ کی وجہ سے ہی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کی مدت میں بعض لوگوں کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات بندے سے تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ان مشکلات سے باہر بھی آ بھی جائے تو پھر بھی اپنی تعلیم دوبارہ شروع نہیں کرتے۔ میں نے دیکھا ہے اکثر لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی کیونکہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد تعلیم حاصل کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔

افسوس کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہم یہ بات بہت زیادہ سوچتے ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، اب ایک  مخصوص مدت کے بعد تو ہماری تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہی نہیں رہی۔ لیکن اب تعلیم حاصل کرنا جدید دور کا تقاضا ہے اور ہمیں اپنی پرانی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اور اپنے اندر  تعلیمی کامیابی حاصل کرنے کی لگن پیدا کرنی ہوگی۔

حکومت کو بھی اس حوالے سے خاص کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ہمارے ملک میں نظام تعلیم پر خصوصی توجہ نہیں دی جا رہی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دوسرے ممالک کے لوگ ہم سے تعلیم کے میدان میں اس لئے بھی آگے ہے کیونکہ وہاں حکومت حصول تعلیم پر خاص توجہ دے رہی ہیں۔

ہمارے ملک میں لوگوں کے لیے مناسب تعلیمی سہولیات اور مفت تعلیم فراہم کرنے سے بہت سارے لوگ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں میں دوبارہ سے تعلیم شروع کرنے کی اگاہی پھیلانے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ تعلیم میں ترقی ہی کسی ملک کی اصل ترقی ہوتی ہے۔

 

 

Show More
Back to top button