زہریلی فضائیں کیسے ہماری صحت کو متاثر کرتی ہیں
نازیہ
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم جو سانس لے رہے ہیں کہی وہ ہمارے جسم میں بیماریوں کا باعث تو نہیں بن رہی؟ تو آیئے آج میں اس بلاگ میں آپ لوگوں کو فضا کے باعث ہونے والی بیماریوں، نقصانات اور وجوہات کے بارے میں بتاتی ہوں۔
پرانے زمانے میں پاکستان کی ہوا خالص تھی، ندیاں، چشمے، نہریں، پہاڑ، شہر، گاؤں، کھیت اور آسمان سب بہت حسین اور پر کشش تھے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو آسمان اس قدر نیلا اور صاف نظر آتا تھا کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ ہوا اس قدر صاف تھی کہ آسمان میں تارے صاف اور واضح نظر آتے بلکہ لوگ ان تاروں کی روشنی سے ہی رات کی تاریکیوں میں چلتے تھے۔ اب تو رات کی تاریکی میں جب بھی آسمان کو دیکھتی ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے آسمان پر گرد پڑی ہو۔ بدقسمتی سے ماحول پہلے جیسا خالص نہیں رہا۔ ہم انسانوں کی وجہ سے فضا زہریلی ہو گئی ہے۔ نہ ہی آسمان پہلے کی طرح نیلا رہا اور نہ ہی کھیت، چشمے، نہریں اور فضا پہلے کی طرح رہی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر زہریلی فضا سے کون کون سی بیماریاں پیدا ہوتی ہے؟ ہوا اس قدر زہریلی ہو گئی ہے کہ جیسے ہی ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کچھ دیر بعد ہم لوگ کھانسنے لگتے ہیں ناک اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے، اس کے علاوہ آلودہ ہواؤں کی وجہ سے سانس، پھیپڑے، دمہ، الرجی، آنکھ، گلہ اور جلد کی بیماریاں بھی جنم لیتی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں آلودہ ہوا سے 70 لاکھ اموات ہوتی ہے یہ کوئی کم تعداد نہیں ہیں، یہ بات ستمبر 2023 میں جینیوا میں یو این کے جنرل سیکرٹری انٹونیا گٹیرس نے نیلے آسمان کے لیے صاف ہوا کے بین الاقوامی دن کے موقع پر خطاب میں کہی۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کا اخراج کافی زیادہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کے دھویں نے ہوا کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے ناک ڈھانپے بغیر گزارا نا ممکن سا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھٹوں اور کارخانوں سے جو دھواں نکلتا ہے وہ انتہائی زہریلا ہوتا ہے۔ یہ دھواں اس قدر کالا اور زہریلا ہوتا ہے کہ جسم پر صاف نظر آتا ہے۔ اب آپ خود سوچیے کہ اس جگہ پر کام کرنے والے مزدوروں کی کیا حالت ہوگی۔
دھند بھی ہوا کو آلودہ اور زہریلا کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ پہلے دھند ہوتی تھی مگر وہ دھند اتنی دھندلی نا تھی اس زمانے میں دھند خطرناک حد تک زہریلی ہو گئی ہے۔ ابھی یہ پچھلی سردیوں کی بات ہے کہ دھند میں سانس لیتے وقت دشواری ہوتی تھی۔
ہوا کے زہریلے ہونے میں سب سے اہم کردار درختوں کی کٹائی کا ہے۔ وقت بدل چکا ہے گاؤں کے لوگ شہروں کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے لئے زمین کی ضرورت ہوگی اور زمین کے لیے درختوں کی کٹائی کی جا رہی ہے۔ درختوں کی کٹائی انتہائی ظلم ہے یہ درخت تو ہمیں مفت میں آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ قدرت کا یہ نظام دیکھو اگر یہ آکسیجن پیسوں پہ ملتی تو نہ جانے غریبوں کا کیا حال ہوتا۔
مگر بدقسمتی سے کسی کو درختوں کے اہمیت کا پتہ ہی نہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور لوگ آمدنی کی خاطر درختوں کو کاٹ کر بیچ رہے ہیں۔ تو اب آپ خود بتائیں کہ یہ درخت جس رفتار سے کاٹے جا رہے ہیں بہت جلد ہوا کو اور بھی زہریلا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
جگہ جگہ کچرا بغیر کوڑے دان کے پھینکا جا رہا ہے جس سے تعفن پھیلتا ہے اور ہوا بدبودار ہو جاتی ہے۔ مشکل سے ایسا ہی کوئی راستہ ملے گا جو کچرے سے پاک ہو، جب جب طوفان آتا ہے یا تیز ہوا چلتی ہے تو اس کچرے کے ذرات ہماری آنکھوں، منہ اور حلق میں جا رہے ہوتے ہیں۔ جس سے سانس اور گلے کی بیماریاں جنم لیتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کچرے کو ٹھکانے لگایا جاۓ ورنہ یہ اسطرح سے بیماریوں کا باعث بنتا رہے گا۔
براۓ مہربانی محنت کیجئے، اپنے اردگرد کو صاف رکھیئے۔ زہریلی اور آلودہ ہوا ایک عالمی مسٔلہ بن چکا ہے جس کو مل کر ہی حل کرنا ہوگا۔
شروعات اپنے ہی گھر سے کریں، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیئے۔ حکومت کو ان گاڑیوں پہ پابندی لگانی چاہیئے جو دھواں چھوڑتی ہے۔ کچرے کو وقت پر ٹھکانے لگانا چاہیئے، جس سے ہوا میں تعفن نہ پھیلے۔