کیا ورکنگ ویمن اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر دھیان دے پاتی ہے؟
حدیبیہ افتخار
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک سوال عورتوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے کہ کیا عورتیں گھر سے باہر نکل کر نوکری کر سکتی ہیں یا نہیں؟ کیا انہیں اعلیٰ تعلیم اور پھر نوکری کے لئے والدین یا پھر شوہر اجازت دے گے یا نہیں؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی خواتین کو ان مشکلات کا سامنا اب بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ جن ممالک نے ترقی کی ہے تو اس میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے ان ممالک کی معیشت میں عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی کچھ خوش نصیب خواتین ہیں جن کو اس طرح کے مسائل سے دو چار نہیں ہونا پڑتا وہ بغیر کسی پابندی کے اچھی تعلیم حاصل کرتی ہے اور جاب میں بھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اب بات کرتے ہیں ان خواتین کی جو گھر بھی سنبھالتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نوکری بھی بخوبی سر انجام دیتی ہے لیکن کیا یہ عورتیں اپنے بچوں کی تعلیم اور اچھی تربیت پر دھیان دے پاتی ہیں؟
سناء بلال عبدالولی خان یونیورسٹی میں ٹیچر ہے انھوں نے بتایا کہ ان کی اولین ترجیح اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت ہے جس کے لئے وہ دن رات محنت کرتی ہے۔ اپنی جاب کے ساتھ ساتھ گھر دیکھتی ہے اور بچوں کو بھی وقت دیتی ہے تاکہ انکی جاب کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔
سناء بلال نے بتایا کہ جاب کے ساتھ زندگی کے تمام معاملات کو دیکھنا ہر گز آسان نہیں ہے کبھی کبھار وہ بہت تھک جاتی ہیں مگر اس بات کی تسلی رہتی ہے کہ ایک انڈیپنڈنٹ عورت ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تمام ضروریات بآسانی پوری کر سکتی ہے۔
سناء کہتی ہے کہ ان کے بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو اس کے لئے انہوں نے اپنے بچوں کے لئے ٹیوشن لگا رکھی ہے اور خود بھی ان پر نظر رکھتی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی آج کل کے بچوں کی ترقی یافتہ زندگی کی ایک اہم ضرورت بھی ہے اور وہ اپنے بچوں کی تمام تر ضرورتیں بغیر کسی پریشانی کے پورے کرتی ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے مگر عورتوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا آج کی ضرورت ہے۔
لیکن اگر تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو جہاں یہ معاشرہ عورتوں کی ترقی میں ہمیشہ آڑے آیا ہے عورت نے جب بھی ترقی کا سوچا تو ایسا ممکن نہیں کہ اسے کہیں سے پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
ایسی ہی پریشانی کا سامنا منال حیات کو بھی ہے منال نے بتایا کہ جب انھوں نے جاب شروع کی تو انھیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کو بہت باتیں سننا پڑی "باہر جاب کروگی تو یہ گھر کون سنبھالے گا،اور بچوں کی تربںت پر دھیان دینے کا وقت ہوگا تمہارے پاس؟”
یہ وہ الفاظ ہیں جو منال کو اپنی ساس سے تب سننے کو ملیں جب انہوں نے اپنی شادی کے بعد اپنی جاب جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
منال حیات کا تعلق بھی نوشہرہ سے ہے وہ بتاتی ہیں کہ وہ شادی سے پہلے ایک سکول میں جاب کرتی تھی اور اپنی تمام ضروریات خود پوری کرتی تھی پھر جب شادی ہوئی تو اس کا خیال تھا کہ اگلے گھر میں اسے جاب جاری رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔
وہ کہتی ہے کہ جب ان کا بیٹا ہوا تو شوہر کی کوئی اچھی جاب نہ ہونے کی صورت میں ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مشکل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے دوبارہ جاب شروع کی۔
منال نے بتایا کہ ابتداء میں کافی مسائل کا سامنا کیا لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی، جاب کے ساتھ گھر کے کام کو بھی دیکھا۔ بچے کو وقت دیا اسی سکول میں بچے کا ایڈمیشن کروایا اور بہرحال لڑ جھگڑ کر اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوئی۔
آج جب منال کی سیلری سے گھر کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی مجھے اپنے بچے کی تعلیم و تربیت پر نظر رکھنے میں کوئ مسئلہ ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے لئے اپنی بات رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہر گز آسان نہیں ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر آپ خود اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھائے گے تو کوئی دوسرا آپ کے لئے نہیں بولے گا میں نے جب بھی کامیاب خواتین کو دیکھا ہے تو انہیں ہر لحاظ سے کامیاب دیکھا ہے اور ایساممکن ہی نہیں ہے کہ ایک عورت ایک کام کرنے میں باقی زمہ داریاں پوری نا کر سکے۔ یہ مشکل تو ہو سکتا ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔