پوسٹ پارٹم ڈپریشن: کیا ایک ماں اپنی ہی اولاد سے نفرت کر سکتی ہے؟
سندس بہروز
دنیا میں شاید سب سے مشکل کام بچے پیدا کرنا اور ان کی اچھی پرورش کرنا ہے۔ بچوں کو اس دنیا میں لانے کے لیے نہ صرف ماں کو جسمانی تغیر سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی وہ تغیر کا شکار ہوتی ہے۔ ایک عورت جو کل تک صرف اپنے بارے میں سوچتی تھی وہی عورت ماں بننے کے بعد خود کو ایک منٹ نہیں دے پاتی۔ اس کی تمام توانائیاں اس کی اولاد کے لیے وقف ہو جاتی ہے اور ایسا غیر ارادی طور پر ہوتا ہے۔
اولاد ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اکثر خواتین بچہ کی پیدائش کے بعد بہت پریشان ہوتی ہے کیونکہ ان کو لگتا ہے وہ اس ذمہ داری کو صحیح سے نہیں نبھا پائے گی جس کی وجہ سے ان کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ڈپریشن نایاب کو بچے کی پیدائش کے بعد ہوا تھا۔
نایاب نے بتایا کہ جب میرا بچہ پیدا ہوا تو مجھے اس طرح سے خوشی نہیں ہوئی جیسے کہ ہونی چاہیے تھی۔ میں بچے کے کام نہیں کر پاتی تھی اور ہر وقت اداس رہتی تھی۔ نایاب کا کہنا تھا کہ جب میں بچے کے ساتھ اکیلی ہوتی تھی تو میرا دل کرتا کہ میں اس کو تکلیف پہنچاؤں۔ اس بات پر مجھے بہت شرمندگی ہوتی اور میں روتی رہتی۔ اور جب میں نے اپنے شوہر کو یہ سب بتایا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کچھ نہیں ہے یہ صرف تمہارا ذہنی خناس ہے۔ شاید تھکن کی وجہ سے تم ایسا محسوس کرتی ہو اور تمہارا موڈ اس لیے خراب رہتا ہے کہ تمہاری نیند پوری نہیں ہو رہی۔ اس کے شوہر نے اس کو یقین دلایا کہ یہ وقتی ہے اور خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
نایاب کا رویہ دیکھ کر اس کے سسرال والے اس کو کہتے کہ تم واحد عورت نہیں ہو جس نے بچے کو جنم دیا ہے۔ دنیا میں سب عورتوں کے بچے ہوتے ہیں مگر سب کا منہ تمہاری طرح لٹکا نہیں ہوتا۔ یہ باتیں سن کر نایاب کی حالت اور خراب ہوتی اور اس کی افسردگی میں اضافہ ہوتا اور پھر رونے کے علاوہ اس کا کوئی کام نہ ہوتا۔
یہ سب تب تک تھا جب تک نایاب نے ڈاکٹر کو نہیں دکھایا۔ کسی تکلیف کے باعث نایاب کو اپنی گائناکالوجسٹ کے پاس جانا پڑا اور ان کو اپنے حالات بتانے کے بعد ڈاکٹر نے ان میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی تصدیق کی اور ان کے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی سخت ہدایات دی۔ مگر اس کے خاندان کی عورتیں آج بھی کہتی ہیں کہ بچے تو ہم نے بھی پیدا کیے ہیں، ایسے ڈرامے نہیں کیے۔
نایاب اور اس کے خاندان کی طرح بہت سے لوگ اس بیماری سے بے خبر ہیں۔ پوسٹ پارٹم ڈپریشن بچے کی پیدائش کے بعد ہی شروع ہو سکتا ہے اور کچھ عرصے تک رہتا ہے۔ اس کا خطرہ ان عورتوں کو زیادہ ہوتا ہے جو پہلے کسی ڈپریشن سے گزر چکی ہو یا حمل کے دوران کسی ذہنی دباؤ کا شکار رہی ہو۔ کچھ عورتوں میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے جبکہ کچھ میں کم۔ اگر اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے تو ڈاکٹر دوائیں بھی لکھتے ہیں ورنہ گھر کے افراد کو ان کی ذہنی سکون کا خیال رکھنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ شوہر اور سسرال والوں کا اچھا رویہ اس بیماری کے جلد افاقے کا سبب بنتا ہے۔
بچے کے اس دنیا میں آنے سے قبل اور اس کے بعد کسی بھی عورت کو بہت تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس کے خاندان والوں خاص کر اس کے شوہر کو چاہیئے کہ نہ صرف اس کی جسمانی صحت بلکہ اس کے ذہنی سکون کا بھی خاص خیال رکھیں تاکہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند ہو۔