بلاگزعوام کی آواز

بچوں میں اخلاقی تربیت کا بڑھتا ہوا فقدان، قصوروار کون؟ والدین، اساتذہ یا پھر بچے۔

زینش رشید

فطری طور پر ایک بچے کی خصوصیات آج بھی وہی ہیں جو کہ ارسطو نے 400 BC میں اپنی کتاب ‘دی سٹیٹ’ میں کچھ اس طرح بیان کی کہ بچہ بڑوں کی نسبت زیادہ گہرائی سے اپنے ماحول اور ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ نہ صرف مشاہدہ کرتا ہے بلکہ اس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس بارہ سال تک وہ جو سیکھتا ہے اسے پوری زندگی رہنمائی کے لیے ساتھ لئے پھرتا ہے ۔

لیکن دور جدید کے تقاضوں کے تحت بیشتر والدین کی توجہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔ بےشک اچھی تعلیم ہی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے کار آمد ہے ۔ مگر کیا اعلیٰ تعلیمی ادارے اور غیر ملکی نصاب ہمارے بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے کافی ہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بچہ ایک موٹی کتاب سے بہتر سیکھ سکتا ہے یا اپنے والدین کی آغوش میں اسی کہانی کو ہمیشہ کے لیے اپنے ذہن نشین کر سکتا ہے؟ مقصد صرف پڑھانا نہیں بلکہ سکھانا بھی ہے ۔ اور بچے صرف وہ سیکھتے ہیں جو وہ دیکتھے ہیں ۔ یعنی اگر وہ کسی کو بری بات پر بھی ہنستا دیکھے تو اسے اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایک اچھی بات کو بھی اپنے سامنے غلط پیش ہونے کی وجہ سے خاطر میں نہیں لاتے۔

ایسا ہی ایک واقع دو روز قبل میرے سامنے پیش آیا جب دو بچے اپنے موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھے اور انکی والدہ کو یہ شکایت تھی کہ وہ انکی وجہ سے کافی پریشان ہے کیونکہ یہ پڑھائی میں کمزور ہیں۔ میں نے ان سے وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی تو انکا جواب تھا کہ کچھ اساتذہ کی نااہلی ہے، کچھ بچوں کا پڑھائی میں دل نہ لگنا اور یہ کہ اب انکی اپنی صحت بھی پہلے کی طرح تندرست نہیں کہ وہ انہیں توجہ دیں سکیں۔

حالانکہ وہ ہوم ٹیوٹر بھی رکھ چکی تھیں۔ یہ جان کر مجھے کافی حیرانی ہوئی کیونکہ وہ بچے جوائنٹ فیملی کی بجائے الگ رہتے تھے۔ بہر حال بچوں کے پاس بیٹھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ سمجھدار ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ گھر میں ہر فرد سے کہیں بڑھ کر خود کو سمجھدار سمجھتے ہیں۔

خیر میں نے ان سے گیم کے متعلق ہی بات شروع کی جس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا آپ گیم کھیلتی ہیں۔ میرے انکار پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم سے تو اسکی عادت نہیں چھو ٹتی۔ پھر موضوع کو آگے بڑھانے کے لیے جب میں نے ان سے انکے پسندیدہ مضمون کے بارے میں پوچھا تو جواب سن کر دکھ ہوا کہ وہی بچے جو گیم کے بارے میں اتنی مثبت رائے رکھتے ہیں وہ پڑھائی اور اساتذہ کے لیے ایسے غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اخلاقاً ایک بدکار انسان کے لیے بھی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔

میں نے انہیں اپنی اساتذہ سے عزت سے پیش آنے کی تلقین کی پر انکا گلہ تھا کہ انکی ٹیچر انہیں مارتی ہیں اور اگلی بار وہ انکا لحاظ بھی نہیں کرینگے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے ؟ والدین کو، اساتذہ کو ، یا پھر بچوں کو؟

میری یہ رائے ہے کہ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں اور وہ ہر قدم پر اپنی پرورش اور اس ماحول کا، جس میں وہ پلتے بڑھتے ہیں، عکاسی کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ والدین کا فرض اولین ہے کے انہیں اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہر روز اپنے وقت کا ایک چھوٹا حصہ ہی صحیح پر اپنے بچوں کے لیے مختص کریں۔ ان سے انکی روٹین کے بارے میں پوچھے، انکے چھوٹے چھوٹے مسائل کو سنا کریں اور بہترین طریقے سے انکا حل تلاش کریں۔ اٹھتے بیٹھتے انہیں بنا ڈانٹے اور احساس دلائے وہ اخلاقیات سکھائے جو انکی ذات کے نمایاں پہلوؤں میں شامل ہوں۔

اساتذہ کا بھی یہ فریضہ ہے کہ بچوں کو محبت اور شفقت سے پڑھائیں۔ تعلیم کا مقصد ہر گز مشین بنانا نہیں بلکہ ایسے انسان بنانا ہیں جو اخلاق، رحم دلی، اور محبت کی زبان سے آشنا ہوں۔ اور وہ تبھی ممکن ہے جب اساتذہ اپنے آپ کو ان اقدار کا بہترین نمونہ بنائیں ۔

اسکے علاوہ بڑے بہن بھائیوں کو بھی چاہیے کہ اپنے چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ پیار سے پیش آئے اور انکی تربیت میں وہ کمیاں پوری کریں جو انہیں اپنے بچپن میں والدین سے مکمل ملی۔

اور جہاں تک بات ہے بچوں کی ، تو بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ مٹی کی طرح، آپ انہیں جس سمت ڈھالینگے وہ ڈھل جائیں گے ۔

 

 

Show More

Zeenish Rashid

زینیش رشید کوہاٹ یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر کے طور پر کام کر رہی ہیں
Back to top button