بلاگزعوام کی آواز

ارے کہیں تمہارے ہاتھوں ایکسیڈنٹ ہی نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔

نازیہ

پتہ نہیں تم ڈرائیونگ کیسے سیکھو گی اور اگر سیکھ بھی لو گی تو کیا کر لوگی؟

ارے کہیں تمہارے ہاتھوں ایکسیڈنٹ ہی نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔

اگر تمہارے ہاتھوں سے ایکسیڈنٹ ہو جائے تو پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے

بس آرام سے گھر میں بیٹھ جاؤ یہ ڈرائیونگ تمہارا کام نہیں ہے یہ تو مردوں کا کام ہے۔

اگر آپ ایک عورت ہے اور پاکستان میں رہتی ہے اور گاڑی چلاتی ہے تو یقیناً یہ اس طرح کے طنزیہ جملے آپ کو تقریباً روز ہی سُننے کو ملتے ہوں گے۔ اکیسویں صدی کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جہاں اکثر معاشروں میں عورت اور مرد کی تفریق ختم ہوتی جارہی ہے اور خواتین خود مختاری کی صف میں کھڑی ہو رہی ہے۔ مگر پاکستان میں اب بھی خواتین کی خودمختاری کی شرح کافی کم ہے۔

اس جدید دور میں پاکستان میں اب بھی گاڑی چلانے والی خواتین کی تعداد مرد ڈرائیورز کے نسبت انتہائی کم بلکہ نا ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود جو خواتین گاڑیاں لے کر سڑکوں پر آتی ہے تو اُن میں سے اکثر خواتین کو مردوں کے طرح طرح کے طنزیہ جملوں، طعنوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں لڑکیوں کا بڑے شہروں میں دن کے وقت گاڑی چلانا صحیح ہے لیکن رات کے وقت گاڑی چلانا کسی خطرے سے کم نہیں۔ سُنسان جگہوں پر یا ہائی وے پر گاڑی چلانا تو خواتین کے لیۓ بلکل ناممکن سا ہے۔ معاشرے کے اس منفی رویئے کی وجہ سے اکثر والدین اور اہلخانہ خواتین کے ڈرائیونگ سے پریشان رہتے ہیں۔

آۓ روز یہ عورتیں روز کس اذیت سے گزرتی ہے یہ صرف ان کو معلوم ہے۔ پتہ ہے خواتین ڈرائیورز سڑک پر آتے ہی سب سے پہلے یہ چیک کرتی ہے کہ میری گاڑی کے تمام شیشے اوپر اور دروازے لاک ہو کیونکہ سگنل پر ساتھ والے لوگ اکثر گھور رہے ہوتے ہیں جو بہت بُرا لگتا ہے۔ اس لیے خواتین ڈرائیونگ کرتے وقت صرف سامنے دیکھتی ہے۔

ڈرائیونگ کے معاملے میں اکثر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ٹریفک قوانین سب کے لیے یکساں ہے اور سڑک بھی سب کے لیے ہے۔ یہ سڑکیں کسی کی اپنی جاگیر تو نہیں تو پھر گاڑیاں چلانے والوں میں یہ تفریق کیوں؟

طرح طرح کی باتیں اور رویئے خواتین کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہے۔ بُرا ڈرائیور تو مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی۔ ایک فرانسیسی تحقیق کے مطابق خواتین مردوں سے زیادہ محفوظ ڈرائیونگ کرتی ہے۔

گاڑی ایک مشین کی طرح ہے جسے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین ڈرائیورز کی جگہ محض اس کا گھر ہے۔  کوئی بھی ایمرجنسی ہو اور گھر میں گاڑی موجود ہو تو کیا خواتین اپنے شوہروں یا بیٹوں کے آنے کا انتظار کرینگی یا خود گاڑی چلا کر اپنے خاندان کے کام آکر سب کو مصیبت سے بچا سکتی ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور 53 سالہ  شمیم اختر ہے۔ انھوں نے اپنا پہلا سفر راولپںڈی سے آزاد کشمیر تک طے کیا تھا۔ پہلے وہ ٹیکسی چلاتی تھی اور پھر بعد میں انھوں نے ٹرک بھی چلایا۔

سعودی عرب میں پہلے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کو خودمختار بنانے کے لیۓ خواتین ڈرائیونگ کرسکتی ہے۔

جنوبی کوریا نے اپنی خواتین ڈرائیورز کے لیے خصوصی پارکنگ کا انتظام کیا ہے جس میں بہترین روشنی کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ گاڑی پارک کرنے میں خواتین ڈرائیورز کو آسانی ہو۔

شاید ہم اپنی روایتی سوچ کو اب تک تبدیل نہیں کرسکے کہ خواتین بھی گاڑی چلا سکتی ہے۔ معاشرے کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت بدل چکا ہے جدت آچکی ہے۔ خواتین کو مہذب دائرے میں رہتے ہوۓ گاڑی چلانی چاہئے۔ ان کو اعتماد اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی اس معاشرے کی مہذب اور ذمہ دار شہری ہے۔ براۓ مہربانی اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button