کیا قربانی لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جاتی ہے ؟
سعدیہ بی بی
ایک ہی دن باقی رہ گیا ہے عید قربان میں ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانی کا دن۔ اور ہم سب یہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جو اس وقت طبقاتی نظام ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے کہ امیر امیر تر ہے اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔
یہ وہ عوامل ہیں جن سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔ جو صاحب ثروت ہیں وہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کو مقدم قرار دیتے ہوئے گرانی اور مہنگائی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور مہنگے سے مہنگا جانور خرید کر بنگلوں میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید قرباں کا مطلب اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو دولت کی نمائش نظر اتی ہے ۔
قربانی کا فلسفہ بھی ہمارے ایمان کا جزو ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کا جانور خرید کے لوگوں میں اپنے دولت مند ہونے کا ثبوت دیا جارہا ہو۔ جیسے قربانی اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے کی جاتی ہے ۔
جیسے جیسے مہنگائی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے معاشرے میں دکھاوے اور خود نمائی کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے ۔ شاید اس کی وجہ غربت اور بدحالی ہی سمجھ آتی ہے ۔ اج کے دور میں قربانی بھی ایک مقابلہ اور خود نمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ایک وہ دور بھی تھا جب عید قرباں کو بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا تھا ۔
لوگ سال بھر پہلے سے قربانی کے جانور کی اپنے گھر میں پرورش کیا کرتے اور پھر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا کرتے تھے ۔ ان کے جذبات صرف اور صرف جذبہ قربانی اور تقوی کے ساتھ جڑے نظر آتے تھے لیکن بدلتے وقت نے اس سے بھی نئے جھمیلوں میں الجھا دیا ہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں گنجائش بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور سوچنے کے انداز بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب ہماری سوچ میں دکھاوے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے ۔ عید الاضحی قریب آتے ہی قربانی اور جانور سب سے گرما گرم موضوع ہوتا ہے ۔ لیکن لوگ اس تہوار کے پیچھے موجود روحانیت پر بات کرنے کے بجائے جانوروں کی نسل ، قیمت ، سائز وغیرہ پر بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ بچے تک اپ اس میں ایک دوسرے کے جانوروں کا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا جانور علاقے بھر میں مشہور ہو لوگ دیکھ کر واہ واہ کریں اور اس کی قیمت پوچھنے پر مجبور ہو جائیں ۔
ہمارا میڈیا اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ ہر بات میں وہ اپنی طاقت اور وقت کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے بچے تک اپ اس میں ایک دوسرے کے جانوروں کا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ قربانی جیسی سنت کو بھی کمرشل ازم یا خود نمائی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔ عید قربان سے قبل جانوروں کی خریداری سے لے کر ان کو گھر میں رکھنے اور پھر ان کی قربانی ہونے تک کے تمام مراحل کی سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کیا جاتا ہے ۔
شریر لڑکے گائیں بیل کی ریس لگاتے ہیں اور ساتھ خوب ہلا گلا کرتے ہیں ۔ جانوروں کی کیٹ واک کروا کر بھی ان کے پیکج بنائے جاتے ہیں ۔ قربانی کے جانوروں کی ویڈیو اور تصویریں بنائی جا رہی ہوتی ہیں تاکہ اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر کے خوب داد و تحسین سمیٹی جا سکے ۔ قربانی کے جانور کی نمائش کا اہتمام اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑی پیداواری کمپنی اپنے کسی خاص پروڈکٹ کی نمائش کرتی ہے ۔ کتان لگائے جاتے ہیں ، ان میں لائٹنگ کا اہتمام ہوتا ہے، اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ قربانی کے جانور کو بھی برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور اس کی نمائش ہوتی ہے۔
لوگ دور دور سے جانور کو دیکھنے اتے ہیں کہ فلاں نے اتنا مہنگا اور خوبصورت جانور خریدا ہے ۔ بہرحال قربانی جو بھی کر رہا ہے اچھی ہی نیت سے کرتا ہوگا لیکن اگر وہ اس میں سے ریاکاری کو نکال دے تو نہ صرف اس کو زیادہ ثواب ملے گا بلکہ اس کے بچے بھی اس سنت کے اصل فضائل سے واقف ہو سکیں گے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ملک جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جہاں گوشت کھانا ایک لگژری بن چکا ہے۔ جہاں بجلی کا بل دیکھ کر لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے۔ جہاں ہر سال کوئی نا کوئی افت اجاتی ہے اور لاکھوں لوگ دربدر ہوجاتے ہیں۔ وہاں صرف دکھاوے کے لیے اور معاشرے میں ساکھ بنانے کے لیے جانوروں پر اربوں روپے خرچ کرنا کیا ضروری ہے ؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے محراب و منبر سے قربانی کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بتایا جائے کہ قربانی اللہ کی رضا کے لیے اور اسی کے نام پر ہے ۔ اسے نمود و نمائش ریا کاری جیسے امور سے شرک میں تبدیل نہ کیا جائے ۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہے اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں ۔