ہمارے نوجوانوں کو سنا نہیں جاتا
سندس بہروز
جب اپنے ارد گرد کے نوجوانوں کو دیکھتی ہوں تو دل اداس ہوتا ہے۔ جب ان کے زرد اور مرجھائے ہوئے چہرے، مفکراور اداس آنکھیں دیکھتی ہوں سوچتی ہوں کیا یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں ؟ کیا یہ ہمارے ملک کو ترقی دے پائیں گے؟ مستقبل میں ہم جہاں پہنچنا چاہتے ہیں کیا یہ ہمیں پہنچا پائیں گے؟ جس نوجوان کے چہرے کی طرف دیکھوں تو ہمت،جذبے اور جوش کی بجائے اکتاہٹ سی نظر آتی ہے۔ جیسے وہ کہیں اپنی ہی ذات سے تنگ ہو اور خود ہی میں گم ہو۔ نہ وہ خود سے خوش دکھائی دیتے ہیں نہ اپنے والدین سے اور نہ ہی اپنے ارد گرد کے ماحول سے۔ جب سے میں نے ان نوجوانوں میں فرسٹریشن دیکھی ہے تب سے اس کے اسباب کی کھوج میں لگی ہوں اور بغور مشاہدے سے میں نے چند چیزیں دریافت کی ہیں۔
اول تو یہ کہ ہمارے نوجوانوں کو سنا نہیں جاتا۔ جب وہ دنیا کو سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے حالات کا اپنا ہی ایک نظریہ قائم کرتے ہیں اور اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو کوئی ان کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ والدین بچوں کو بہترین کھلانے، پہنانے اور پڑھانے کے لیے کمائی میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان کی مادی ضروریات پورا کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو سب کچھ دے دیا۔ بہت سے والدین بچوں کی جذباتی ضروریات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر نہ ان سے دل کی بات کرتے ہیں نہ ان کے دل کی بات سنتے ہیں۔
نوجوان پرجوش ہوتے ہیں۔ وہ اتنے باہمت ہوتے ہیں کہ ان میں کچھ بھی کر سکنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ ان کو اگر وقت اور توجہ کے ساتھ اچھی رہنمائی ملے تو وہ اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس اگر ان کی توانائی کو نظر انداز کیا جائے اور ان کے نظریات کا احترام نہ کیا جائے تو وہ منفی جانب سفر کرنے لگتے ہیں اور اس طرح سے وہ فرسٹریشن کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ انہیں جذباتی طور پر محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس ان کی تمام خوبیوں کو پس پشت ڈال کر ان کو کم ہمت اور بزدل بنا دیتا ہے اور وہ کسی بھی میدان میں بہت جلدی ہمت ہار جاتے ہیں اور مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اس کی ایک بہت بڑی وجہ نوجوانوں کا کھیل کود اور قدرت سے دوری ہے۔ آج سے 10 سال پہلے اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ تب تعلیمی درسگاہوں میں کھیل کے بہت بڑے بڑے میدان ہوا کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں کھیل کود اور ہم نصابی سرگرمیوں کو کافی فروغ ملتا تھا۔ کھیل کود کے ذریعے سے نوجوانوں کو ہمت نہ ہارنے اور کوشش کرتے رہنے کا سبق ملتا تھا۔ کھیل کود کے لیے مختص ان بڑے میدانوں میں کھیلنے سے نوجوانوں کو یہ سبق ملتا تھا کہ ہار اور جیت سے فرق نہیں پڑتا بلکہ اصل کامیابی تو کوشش کرنے میں ہے۔ اس چیز کا ایک فائدہ تو یہ بھی تھا کہ نوجوانوں کی توانائی مثبت چیزوں میں صرف ہو رہی تھی جس کی وجہ سے کسی منفی جانب ان کا دھیان نہیں تھا شاید اس لیے اس دور کے نوجوان زیادہ ذہین اور ذہنی طور پر تندرست تھے۔
اب تو یہ حال ہے کہ نوجوانوں نے شام کو گھروں سے باہر نکلنا بھی چھوڑ دیا ہے جس سے ان کا دماغ تر و تازہ ہوتا اور ان کی تھکان اترتی تھی۔ یہ چیز بھی ان کو انزائٹی اور فرسٹریشن کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اب ان کا زیادہ تر وقت موبائل پر سرفنگ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ حال یہ ہے کہ جب ایک نوجوان جو کہ اپنے ماحول سے تنگ آ کر افسردگی میں اپنا موبائل اٹھاتا ہے تو موبائل پر وہی پوسٹ آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ انسان کا موڈ ہوتا ہے۔ یہ معلومات موبائل میں موجود ڈیٹا سے لی جاتی ہے۔ ان پوسٹس کو دیکھ کر نوجوانوں کے فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ زندگی سے اور بھی بددل ہوتے جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ فرسٹریشن کے دلدل میں دھنستے جاتے ہیں جہاں سے نکلنے کا راستہ مشکل ہوتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان ہمارے ملک و قوم کو ترقی دیں تو ہمیں ایسے اسباب پیدا کرنے ہوں گے جن سے ان کو مثبت پرورش مل سکے اور وہ فرسٹریشن اور انزائٹی جیسی ذہنی بیماریوں سے دور رہیں۔ اس کے لیے نا ہمیں صرف ان کی مادی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا بلکہ ان کی جذباتی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ ان کے دل کی باتیں سننی ہوگی اور ان کو اپنے دل کی باتیں بتانی ہوں گی۔
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔