بلاگزلائف سٹائل

لڑکی کا باپ ہمیشہ ذلیل کیوں ہوتا ہے؟

 

سندس بہروز                                        

پرسوں ایک شادی میں گئی تو اپنے جانے پر افسوس ہوا۔ نہیں جانا چاہیے تھا۔ تب سے آج تک بس دل میں ایک گرہ سی بندھی ہوئی ہے۔ پھر سوچا کیوں نا اس پر ایک بلاگ لکھوں۔ شاید میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے اور شاید میرے بلاگ سے کسی کی انکھیں کھل جائے۔

بس پھر کیا تھا، قلم اٹھایا اور لکھنے بیٹھ گئی۔ تو کہانی کچھ یوں ہے کہ میں نے شادی میں ایک بیٹی کے باپ کو اپنی بیٹی کے سسر کی منت سماجت کرتے دیکھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ سسر کوئی نیا جھگڑا لے کر آتا اور دھمکی دیتا کہ میں اپنی بیوی بچوں اور بہو کو لے کر گھر چلا جاؤں گا اور ہم شادی میں شرکت نہیں کریں گے۔ اور لڑکی کا باپ بے بس ہو کر ان کی داڑھی پکڑ کر منتیں کرنے لگتا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کی بیٹی اپنے بھائیوں کی شادی میں شرکت کر سکیں۔ اور یہ صرف شادی کے دن والا قصہ نہیں بلکہ جب سے تاریخ پکی ہوئی تھی، تب سے وہ روٹھنے کے بہانے بناتے اور لڑکی کا باپ ان کی منتیں کرتا۔

لڑکی کی تو حالت قابل دید تھی۔ ایک طرف اس کو ڈرتھا کہ اس کا سسر اس کو گھر لے کر چلا جائے گا اور وہ بھائیوں کے سر پر سہرا سجا ہوا نہیں دیکھ پائے گی تو دوسری طرف وہ اپنے باپ کی بے بسی پر اشکبار تھی۔ بھائی بھی اپنی شادی کی خوشی منانے کی بجائے تمام وقت منت سماجت میں لگے رہے۔

یہ عجیب شادی تھی۔ ایسی شادی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی جس میں وہ ماں بھی رو رہی ہیں جس کے دو بیٹوں کی شادی تھی اور وہ بہن بھی غمزدہ تھی جس کے بچپن کی یہ خواہش تھی کہ اپنے بھائیوں کو دولہا بنتا دیکھے۔

اور اس کے خاندان والوں کی حالت اس لڑکی کی شادی کے بعد شروع ہوئی تھی۔ میں حیران تھی کیونکہ یہ وہی لوگ تھے جو بڑی مان سے اس لڑکی کا رشتہ لے کر آئے تھے اور بڑی منت و سماجتوں سے اس کو بہو بنا کر گھر لے کر گئے تھے اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس کو بہو بنا کر نہیں بیٹی بنا کر رکھیں گے۔

کیوں یہ سلوک کیا جاتا ہے بہووں کے ساتھ؟

یہ ہمارے معاشرے کا اصلی چہرہ ہے۔ کہ جب کوئی آپ کے گھر رشتہ لے کر آتا ہے تو بہت عزت سے پیش آتا ہے۔ آپ جناب سے مخاطب ہوتا ہے۔ خان جی، کاکا، ماما کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ بہت دعوے کیے جاتے ہیں جس سے لڑکی کے والدین راضی ہو جاتے ہیں  مگر حالات تب بدلتے ہیں جب لڑکی دلہن بن کر ان کے گھر بیٹھ جاتی ہے۔ وہی شخص جن کو پہلے کاکا، ماما اور خان جی کہہ کر بلایا جاتا تھا اب ان کو نام سے پکارا جائے گا۔ پہلے جو ان کے خاندان کی تعریفوں کے گیت گائے جاتے تھے اب اس کی جگہ خاندان کے نام پر دیے جانے والے طعنے لے لیتے ہیں۔ نا زندوں کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ مردوں کا۔ پہلے جب لڑکی والے گھر آتے تھے تو مختلف لوازمات پیش کیے جاتے تھے اب ماتھے سے بل ہی نہیں جاتے۔ کیونکہ شاید وہ جانتے ہیں کہ اس بیٹی کی وجہ سے ایک دن ان کو اپنا سر نیچے لے کر چلنا ہوگا، کسی کے آگے جھکنا ہوگا تب ہی ان کی بیٹی خوش رہ پائیں گی۔

مختصراً یہ کہ اگر کسی کے گھر اپنی بیٹی بیاہنی ہو تو یہ سمجھ لو کہ اس گھر میں پھر آپ کی عزت نہیں ہوگی۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ بیٹی ہونے پر ماتم مناتے ہیں۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

کیا آپ مجھ سے متفق ہیں؟

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہے اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button