20 لاکھ کے جہیز کے بعد سسرال والوں نے تنخواہ کا مطالبہ بھی کردیا
سلمیٰ جہانگیر
ہمارے معاشرے میں طلاق کو جس قدر عورت کے لیے برا سمجھا جاتا ہے اتنا مرد کے لئے نہیں۔ طلاق کا معاملہ ہو تو میاں بیوی دونوں شامل ہوتے ہیں لیکن طلاق سے عورت کی زندگی میں جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں اس سے مرد کا بہت کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔ طلاق یافتہ عورت کو معاشرے میں لوگوں کے تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسکی زندگی کو بے مقصد سمجھا جاتا ہے۔ انہیں طرح طرح کی باتیں اور طعنے سننے کو ملتے ہیں غرض ایک طلاق یافتہ عورت ایک بہت بڑی گنہگار بن جاتی ہیں۔
یہاں ایک لڑکی کا قصہ بیان کرتی ہوں جو طلاق کے بعد بہت مشکل سے زندگی گزار رہی ہے، یہاں میں اس کا فرضی نام شامل کرتی ہوں۔ کائنات کی شادی اپنے خالہ زاد سے بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ اسکی شادی میں ماں باپ نے کوئی کسر نا چھوڑی اور 20 لاکھ کا جہیز دے کر وہ اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوئی۔ چونکہ کائنات سرکاری ملازمت کرتی تھی تو شادی کے چند دن بعد ہی اسکی ساس اور شوہر نے تنخواہ کا مطالبہ کیا کہ اب تم یہ پیسے ہمیں دوگی یا گھر کا خرچہ چلاوگی کیونکہ یہ شادی انہوں نے اسی لئے کی تھی کہ وہ سرکاری ملازمہ ہے اور گھر کا خرچہ چلائے گی۔
کائنات کے انکار پر اسکے شوہر سمیت پورے گھر والوں کا رویہ اس سے اتنا خراب ہوا کہ شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اسکا کھانا پینا اور اپنے ماں باپ کے گھر جانا بند ہوا۔ بات پھیلتے پھیلتے اتنی بگڑ گئی کہ شادی کے چند مہینوں بعد ہی کائنات کو طلاق مل گئی۔
کچھ دن پہلے یہ خبر سننے میں آئی کہ کائنات کے شوہر نے بڑی دھوم دھام سے دوسری شادی کرلی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق یافتہ مرد کو بہت جلد ہی قبول کیا جاتا ہے جبکہ عورت کے ماتھے پر پوری عمر کے لئے طلاق کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور پھر زیادہ عمر کے مرد یا شادی شدہ مرد بھی ایک مطلقہ عورت سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں اور یہی کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے بھی اپنا گھر اجھاڑ کر آئی ہے تو اب بھی اس سے گھر بسانے کی امید نہیں اور یہ گھر بسانے والی نہیں۔ اب کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ گھر بنانا یا اجھاڑنا کسی ایک بندے کا نہیں بلکہ میاں بیوی دونوں کا کام ہوتا ہے۔ صرف عورت کے زمرے میں یہ بدنامی کیوں آتی ہے؟
ہمارا معاشرہ ان عورتوں کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو جوانی میں بیوہ ہو جائے اور شوہر کی وفات کے سال بعد شادی کا ارادہ کرے۔ اچانک اسکے کردار پر بے شمار انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں حالانکہ ایک مرد اپنی بیوی کے چہلم تک بھی انتظار نہیں کرتا اور یہی کہا جاتا ہے کہ گھر عورت سے خالی ہو گیا ہے اور اسکو عورت کی ضرورت ہے۔ جبکہ اسکے گھر میں ماں ، بہنیں موجود بھی ہو لیکن عورت کا اگر کمانے والا بھی نا ہو تب بھی اسکو یہ حق بہت مشکل سے دیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ عورتیں گھروں کو بناتی نہیں بلکہ خراب کرتی ہیں اور طلاق کی سب سے بڑی وجہ بھی زیادہ پڑھا لکھا ہونا ہے۔ اور یہ بات سب کی زبانوں پر زد عام ہے کہ خود مختار عورتیں ازدواجی زندگی کو برباد کرنے میں کثر نہیں چھوڑتی۔
لیکن طلاق کے بعد ایک عورت جتنی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو آگے لیکر چلتی ہے اس کا علم صرف اللہ کو اور اس صورتحال سے گزرنے والی اسی عورت کو ہوتا ہے۔ ہم صرف الزام لگا سکتے ہیں اور انگلی اٹھا سکتے ہیں کبھی یہ نہیں سوچا کہ ایسی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر انکے مسائل سنے یا جس کرب سے وہ گزر رہی ہیں ان سے انکو نکالنے کی کوشش کریں۔