بلاگزتعلیم

میٹرک امتحانات اور رشوت

 

نشا عارف

خیبر پختونخوا میں میٹرک کے امتحانات کا باقاعدہ آغاز 18 اپریل سے ہو چکا ہے۔ تقریبا تمام سرکاری اساتذہ کی ڈیوٹیاں امتحانی حال میں لگ چکی ہیں اور ساتھ ساتھ  تمام سرکاری اور نجی سکولوں کے طالب علم امتحان تیاری میں مصروف ہے۔

میٹرک کے امتحان کے ساتھ والدین کے امتحان کے بھی دن ہوتے ہیں۔ والدین بچوں پرچے بہتر ہونے کے لئے فکر مند ہوتے ہیں تاکہ ان کے بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوسکے اور کسی اچھے سے تعلیمی ادارے میں آگے تعلیم حاصل کر سکیں۔

ہر سال امتحان ہوتے ہیں کچھ بچے کامیاب تو کچھ ناکام  ہوتے ہیں وہ تو الگ بات ہے لیکن لوگ رشوت دینے اور لینے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ والدین مجبوری میں امتحانی ڈیوٹی پر معمورعملے کے وہ سب مطالبات پورے کرتے ہیں جو والدین کی استعطاعت سے باہر ہوتے ہیں۔

نجی سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین تو ہر قسم کا مطالبہ مان سکتے ہیں جبکہ جن کے بچے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو غریب گھرانوں کے سے آتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات کہ سرکاری سکول کے اتنے فنڈز نہیں ہوتے کہ وہ امتحانی ہالوں کو ہائی ٹی اور اعلی و عمدہ کھانے پیش کریں اور نا ہی والدین کر سکتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو جن کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں ان کو اس ڈیوٹی کہ عوض روزانہ کے حساب سے سرکار کی جانب سے معاوضہ دیا جاتا ہے جو ڈیوٹی مکمل ہونے کے بعد سرکار کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود بعض سرکاری اساتذہ مطالبات کے چکر میں بچوں پر بہت زیادہ سختیاں کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بعض سرکاری سکولوں میں بچیوں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں کہ اگر چائے پانی کا ٹھیک طرح سے خیال نا رکھا گیا تو تو اپ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں کی جائے گی۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو ہمارے زیادہ تر نیو جنریشن سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین محنت مزدوری کرتے ہیں ان کی کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی اس لیے ان کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں ۔

نجی سکول کے مالکان اور بچوں کے والدین امتحان کے دنوں میں کافی خرچے کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر کوئی پرائیویٹ سکول کے ہالوں میں ڈیوٹی کرنا چاہتا ہے تاکہ خوب رشوت سے لطف انراز ہوسکے۔ وہ لوگ اور سکول انتظامیہ تو افورڈ کرسکتے ہیں اور شاید بغیر ڈیمانڈ کے بھی وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ان کو نہیں کرنا چاہئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض اساتذہ سرکاری ہالوں میں سرکاری طالب علموں سے بھی ناجائز مطالبات کرتے ہیں جن میں بعض طلبہ و طالبات خوشی خوشی پوری کرتے ہیں اور بدلے میں ان کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے۔

لیکن جو بچے رشوت نہیں دے سکتے وہ احساس کمتری کا شکار ہونے کے ساتھ دباو میں بھی ہوتے ہیں کہ پڑھائی کے باوجود رشوت دینے والے زیادہ نمبر سے پاس ہوں گے۔ شاید ان بچوں کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ کے لئے بیٹھ جاتی ہے کہ دنیا میں کامیابی صرف پیسے اور رشوت سے ہی ممکن ہے۔

اس لئے ذمہ دار افسران اور عملے سے اپیل کی جاتی ہے کہ امتحانات کے دنوں میں امتحانی ہالوں کا سخت نوٹس لیں اور رشوت دینے اور لینے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے کیونکہ یہی سے بچوں کی ذہن سازی ہوتی ہے اور وہ آگے اسی ذہن کے ساتھ بڑھتے ہیں۔ اس لیے ان کی سوچ کو مثبت بنانے میں اساتذہ، والدین اور انتظامیہ اہم کردار ادا کریں۔ رشوت کے لعنت کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button