نیند میں چلنا بیماری یا عادت
انیلا نایاب
آپ نے بھی کبھی سنا یا دیکھا ہوگا کہ فلاں بندہ نیند میں چلتا ہے یا نیند میں بولتا ہے۔ اسی طرح کا مسلہ بیماری یا جو بھی کہٰے مجھے بھی ہے ۔ بچپن سے ہی نیند میں چلنے اور بولنے کی عادت تھی۔ میری والدہ ہمیشہ ڈانٹی تھی کہ دن کو بھی بہت بولتی ہو اس لئے تو رات کو بھی آرام نہیں وہی عادت نیند میں بھی کرتی ہو۔
ایک دن دا جی (دادا جان) گاوں سے آئے تھے اور صبح میری والدہ مجھے ڈانٹ رہی تھی کہ رات کو بھی چین نہیں بستر پر لٹاتی ہوں اور تم بار بار اٹھ جاتی ہو۔ داجی نے امی کو بتایا کہ اسکو یہ عادت نہیں بلکہ بیماری ہے۔
یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو نیند میں چلنے اور بولنے کی بیماری ہوتی ہے۔ اس جدید دور میں اج تک اس کا کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ بچپن میں نیند میں چلنے اور بولنے کی عادت تھی۔ اب یہ عادت تھی یا کوئی بھی بیماری اج تک مجھے معلوم نہیں ہوا۔ تقریبا ہر رات کو نیند میں بولنا اور چلنا میری عادت تھی زیادہ تر تو امی ہاتھ سے پکڑ کر سلاتی تھی کہ سو جاؤ رات ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا جب امی گہری نیند سوئی ہوئی ہوتی اور میں نیند میں کمرے سے باہر نکلتی اور باہر جانے کے بعد میری آنکھ کھلتی اور انکھ کھلنے کے ساتھ ہی بے تحاشہ چیختی اور امی امی پکارتی تب امی آکر مجھے ہاتھ سے پکڑتی اور کہتی بیٹا پھر سے نیند میں اٹھی ہو چلو آ کر سوجاو۔ جب صبح ہوتی تو بہن بھائیوں کا مجھ پر ہنسنا اور ان کے ہنسنے پر مجھے سخت غصہ آتا۔ میری امی کا کہنا تھا کہ بیٹا تم سارا دن زیادہ بولتی ہو اس وجہ سے وہی باتیں رات کو نیند میں بھی دہراتی ہو۔
بچپن میں اپنی استانی کے جیسے گھر میں جاکر کھیلنا اور تکیوں کو شاگرد بنا کر ان پر چیخنا چلانا تو وہی باتیں رات کو میں نیند میں بھی دہراتی تھی۔
بابا جان کا یہ کہنا تھا کہ یہ تمہیں خاندانی ورثے میں ملا ہے جیسا کہ میرے ایک چاچو کو بھی رات کو نیند میں بولنے اور چلنے کی عادت تھی۔ ایک بار تو وہ گھر کی تیسری منزل سے ایک بھاری روشندان اٹھا کر نیچے لائے جب نیچے اترے اور ان کی انکھ کھلی تو چاچو سے وہی روشن دان جو وہ تین منزل نیچے لائے تھے نہیں سنبھل پا رہا تھا کافی بھاری روشندان تھا جس پر چاچو حیران تھا کہ میں اس کو نیند میں کیسے اٹھا کر نیچے لایا ہوں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے بس یہ جن بھوت کا سایہ ہوتا ہے کوئی کہتا ہے یہ ایک خاندانی بیماری ہوتی ہے جو ورثے میں منتقل ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ دن کو زیادہ چلتے پھرتے اور زیادہ بولتے ہیں وہی رات کو نیند میں بھی وہی کام اور وہی باتیں دہراتے ہیں۔ یہ ایک بہت بری عادت ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی جگہ پر رات کو رکنے کے قابل نہیں ہوتے۔
اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر شہباز کا کہنا ہے کہ نیند میں جو لوگ چلتے ہیں بولتے ہیں وہ کوئی عادت نہیں ہے بلکہ بیماری ہے۔ اس بیماری کو سومنبولزم کہا جاتا ہے۔اس کی مختلف وجوہات ہیں جنیٹک ریزنز ہیں۔ سٹریس ہیں انزائٹی ہے ڈفرنٹ میڈیکیشنز ہیں اپ کا گیسٹ ایسوفیل ریفلیکسز ہیں۔
جہاں تک بعض لوگ کہتے ہیں کہ بچپن میں نیند میں چلتے تھے تو ڈاکٹر شہباز ایک وجہ عمر بھی بتاتے ہیں کہ یہ بیماری عموما بچوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ چار سے اٹھ سال اور زیادہ عمر میں 40 سال کے بعد نیند میں چلنے کی بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس بیماری میں انسان کو سمجھ نہیں ہوتی اور وہ نیند سے اٹھ جاتا ہے اور وہ چلنے پھرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے اپ کو زخمی کر سکتا ہے کسی اور بندے کو زخمی کر سکتا ہے۔ یا وہ چھت سے گر سکتا ہے اور سیڑھیوں سے گر سکتا ہے کھڑکی سے چھلانگ مار سکتا ہے یا وہ ڈرائیو کر سکتا ہے۔
یہ بیماری سورس اف امبیرسمنٹ بھی ہو سکتا ہے کبھی ایسی ایکٹیوٹیز میں انوال ہو جاتا ہے جو شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے اس کو سیکسومینیا کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز وجوہات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تھکاوٹ، نیند کی کمی،بخار،تناو، یا جن لوگوں کو مائگرین کی شکایت ہو یہ بیماری ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر کے مطابق علاج تو کوئی خاص نہیں ہے لیکن احتیاط والدین کرسکتے ہیں جیسے بستر آرام دہ ہو، نزدیک کوئی نقصان دہ چیز نا پڑی ہو جیسے چری،اسلحہ، یا کھڑکی کھلی نا ہو ، ایسے لوگوں کو چھت پر نہیں سونا چاہئے۔ وہ نیند کے دوران گر سکتے ہیں۔ زیادہ پانی یا کوئی بھی لیکوڈ چیز نا پئیں جس سے بار بار واش روم جانے کی حاجت محسوس ہو کیونکہ نیند میں خلل بھی اس بیماری کی خاص وجہ ہے۔