لوگوں کی زندگی سے کھیلتے گاوں کے عطائی ڈاکٹرز
رعناز
پچھلے دنوں میں ڈیوٹی سے واپس گھر آئی۔ نماز پڑھنے کے بعد میں تھوڑا سا لیٹ گئی۔ یہ دوپہر تین بجے کا وقت تھا۔ تھکی ہاری گھر آنے کے بعد میں تھوڑا سا سونا چاہتی تھی۔ میری آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ اچانک ہمسایوں کے گھر سے چیخنے اور رونے کی آوازیں آنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں موجود سارے لوگ زور زور سے رو رہے ہو۔ ان کے چیخنے اور رونے کی آواز کے ساتھ میں فورا اپنے بیڈ سے اٹھ گئی۔
جب میں اور میری امی ہمسایوں کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ ان کے گھر ایک اٹھ سالہ بچے کی فوتگی ہوئی ہے۔ اس معصوم بچے کی وفات پر مجھے بھی بہت زیادہ افسوس ہوا۔ میں اس وقت عجیب کشمکش میں تھی کہ اس بچے کے مرنے کی وجہ کیا ہے؟ یہ بچہ کیسے اور کس وجہ سے مرا ؟ کچھ ٹائم بعد پتہ چلا کہ اس ننھی جان کے مرنے کی وجہ صرف اور صرف انجیکشنز کا لگانا تھا جو کہ گاؤں کے ایک عطائی ڈاکٹر نے لگایا ہوا تھا۔
اس بچے کی پھوپھو مجھے بتانے لگی کہ میرے بھتیجے کو صبح سے بہت سخت بخار تھا۔ ہم نے گھر پر دوائی دی لیکن بچے کو کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ گلی کے کونے میں موجود ڈاکٹر کے پاس ہم بچے کو لے کے گئے۔ ڈاکٹر نے فورا بچے کو ڈبل انجیکشنز لگائے کہ اس سے بچے کا بخار 10 منٹ میں اتر جائے گا۔ دس منٹ میں بچے کا بخار تو نہیں اترا لیکن دنیا سے ضرور رخصت ہو کے گیا۔
اس معصوم بچے کی فوتگی اور یہ کہانی سن کر مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہوا۔ افسوس کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں یہی سوال اٹھ رہا تھا کہ ابھی تک ہم لوگ باشعور نہیں ہوئے؟ ابھی تک ہم گلی محلوں کے چھوٹے چھوٹے عطائی ڈاکٹرز پر بھروسہ کر رہے ہیں؟ ابھی بھی ہم انہیں ڈاکٹرز سے علاج کروا رہے ہیں؟ یہ ڈاکٹرز تو لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
اگر ہم دیکھے اور سوچے تو گاؤں کے ان عطائی ڈاکٹرز کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ صحت اور علاج کے حوالے سے ان کے پاس کسی قسم کا بھی علم نہیں ہوتا۔ ان ڈاکٹرز کے پاس نہ تو ایم بی بی ایس کی کوئی ڈگری ہوتی ہے نہ ان کے پاس کوئی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے۔ بس کسی ہسپتال میں سال دو گزار چکے ہوتے ہیں اور پھر گلی کے کونے میں دکان کھول دیتے ہیں کہ ہم ڈاکٹرز ہیں ہمارے پاس آیا کرو ، ہم آپ کا علاج کریں گے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کسی ہسپتال میں سال دو گزار کے کوئی ڈاکٹر نہیں بن جاتا۔ یہ صرف اور صرف قیمتی جانوں کے ساتھ کھیلنا ہے اور کچھ بھی نہیں۔
یہ صرف اور صرف بزنس کرنے کا ایک طریقہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے عطائی ڈاکٹرز کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کی ایک غلط دوائی یا انجکشن سے کسی کی جان جا سکتی ہے۔ کوئی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو سکتا ہے ۔کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان معمولی ڈاکٹرز میں ان نقصانات کا کوئی احساس نہیں ہوتا نہ ہی انہیں دوسروں کی جانوں کی کوئی فکر ہوتی ہے۔ بس ایک دکان بنا لیتے ہیں جس میں 20یا 30 انجیکشنز، کچھ بخار کی گولیاں اور سیرپ رکھ لیتے ہیں اور باہر بورڈ لگا لیتے ہیں کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔
لیکن میرا سمجھنا تو یہ ہے کہ ادھر غلطی صرف ان ڈاکٹرز کی نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی بھی ہے۔ ہم ہی باشعور نہیں ہیں۔ اگر ہم باشعور ہوتے تو گلی محلوں کے ان ڈاکٹرز کے پاس نہ جاتے، ان سے اپنا نقصان نہ کرواتے۔ ان پر بھروسہ نہ کرتے ان سے اپنا علاج نہ کرواتے۔
لہذا ہمیں خود میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ان چھوٹے چھوٹے ڈاکٹر سے علاج کرنا بند کر دینا چاہیے۔ اپنی قیمتی جانوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ صحتمند اور خوشحال زندگی گزار سکے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔