بلاگزلائف سٹائل

لوگوں کی مدد کریں مگر دکھاوے کے بغیر

 

نازیہ

معاشی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی معاشرے میں غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اسلام بھی ان ضرورتمندوں کی ضروریات اور حاجات پورے کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسی معاشی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام نے مسلمانوں کو صدقہ، فطرانہ اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے تاکہ دولت صرف امیر اور مالداروں کے ہاتھوں میں نہ رہے۔ اسی لیے اسلام میں سال میں ایک مرتبہ مخصوص شرح کے مطابق مالداروں پر زکوٰۃ فرض کر دی گئی ہے۔ جبکہ صدقات کے لیے کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ مالدار اپنے مال میں سے صدقہ کرتے رہیں تاکہ اس کی برکتیں بھی حاصل ہوتی رہیں اور غریبوں کی مدد بھی ہوتی رہے۔ ایسا کرنے سے اپ غریبوں پر احسانات نہیں کر رہے بلکہ یہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے۔

ریاکاری اور دکھاوا

 رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی مسلمانوں میں غریبوں کی مدد کرنا اور خیر خواہی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے بعض لوگوں میں ایک خرابی پیدا ہوگئی ہے اور اس خرابی کا نام ہے ریاکاری اور دکھاوا جس کی وجہ سے یہی صدقہ یا زکوٰۃ دینے والا اپنے ثواب کے بجائے عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اپ نے اگر کسی غریب کو زکوٰۃ یا صدقہ وغیرہ دینا ہے تو اپ نے اس کو اس طرح دینا ہے کہ اپ کے دائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں نام کمانے کی ایک ہوا چل پڑی ہے کہ فلاں شخص نے اتنی زکوٰۃ نکالی، فلاں شخص نے اتنے راشن دیے، فلاں شخص نے دسترخوان لگائی وغیرہ وغیرہ تو کیوں نہ میں بھی اپنا نام ریا کاری کر کے کماؤں۔

تصاویر اور ویڈیوز بنانا

 سوشل میڈیا کے اس دور میں غریبوں کو راشن وغیرہ دینے کا جو انداز اپنایا جاتا ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ کڑکتی دھوپ ہو یا سخت سردی ہو میں ان غریبوں کو گھنٹوں گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیا جاتا ہے، ان سے بد تمیزی کرنا، دھتکارنا، دھکم پیل اور بھگدڑ کا مچ جانا یہ سب اس لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ شہرت ملے۔ دکھاوے اور ریاکاری کے چکر میں راشن دیتے وقت ان غریبوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنوانا اور پھر ان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نشر کروانا اور ساتھ میں سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچانا بھی انتہائی برا عمل ہے۔ ان غریبوں میں ایسے سفید پوش غریب بھی ہوتے ہیں جو اپنی گلی میں کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتے ہیں کہ وہ غریب ہے۔ مگر تصاویر، ویڈیوز اور مشہور ہونے کے لیے ان کو وائرل کر دیا جاتا ہے۔

گھر کی چار دیواری سے مجبوری کی حالت میں نکلنے والی خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز ایسے چھپوائی جاتی ہے جیسے بہت بڑا نیک کام کیا جارہا ہو۔ ایسی حالت میں کوئی اس غریب ماں بہن سے پوچھے کہ اس کے دل پرکیا بیت رہی ہے؟ اسی دوران اگر کوئی غریب اس صدقہ یا زکوٰۃ دینے والے کو کہتے ہیں کہ اپ ہماری تصویریں نہ لیں تو سامنے سے وہ کہتا ہے کہ کیوں نہ لے ہم لوگوں نے تو یہ تصاویر ڈونر کو دکھانی ہے۔ بس غربت کی تنگی کی وجہ سے دل پر پتھر رکھ کر یہ غریب خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر زکوٰۃ، خیرات یا راشن وغیرہ دینے والے کو سوچنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر یہ صورتحال اس کے ساتھ پیش آجائے تو کیا وہ یہ سب کچھ برداشت کر لے گا؟ غریب کی مدد کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس کی غربت اور بے بسی کا شور مچایا جائے۔

عزت نفس کی مجروحی

 ہم سب کو پتہ ہے کہ غریبوں کی مدد کرنا اچھا کام ہے لیکن اج کل یہ جو طریقہ اپنا گیا ہے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔ راشن کے لیے لائنوں میں کھڑے ہونے والے بزرگ اور خواتین پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی عزت دار لوگ ہوتے ہیں۔ اور ہمارے بزرگوں کی طرح عزیز ہوتے ہیں۔ وہاں کھڑی خواتین بھی ہمارے گھر کی خواتین کی طرح عزت کے قابل ہوتی ہے۔ یتیم اور چھوٹے بچے بھی ہمارے گھروں کے بچوں کی طرح محبت کے قابل ہوتے ہیں۔ ان سب کی بھی عزت نفس ہوتی ہے۔ زکوٰۃ دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان غریبوں کو دھتکارا جائے، ان کی عزتوں کے ساتھ کھیلا جائے اور انہیں سرعام دکھایا جائے۔

اخر میں بس اتنا کہونگی کہ صدقہ اور خیرات دینے والا اگر کچھ دے رہا ہے تو وہ کون سا احسان کر رہا ہے۔ یہ تو سب وہی مال دے رہا ہے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ لوگوں کی مدد کرتے وقت انکی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے اور انکو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائے۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button