"اگر سحری کے لیے نہیں جگایا تو میں نہار منہ روزہ رکھوں گی”
رانی عندلیب
جب بھی رمضان آتا ہے تو ہم اپنے پچھلے رمضان کے ساتھ اس رمضان کا موازنہ کرتے ہیں کہ پچھلے رمضان میں اتنی مہنگائی نہیں تھی جتنی اس رمضان میں ہے یا پھر بجلی کی یا گیس کی لوڈ شیڈنگ جیسی باتیں زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو پرانے وقت کے ساتھ یعنی ہمارے بچپن کے دور اور اج کل کے دور میں بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ سائنس نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ وقت اور حالات میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ یہ خوش ائندبات بھی ہے لیکن اس کے کچھ برے اثرات اج کل کے بچوں پر بھی پڑ چکے ہیں جس کا اندازہ رمضان سے ہوا۔
جب ہم بچے تھے تو ہم ساری سہیلیوں اور کزن کے درمیان روزے رکھنے کا مقابلہ ہوتا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہتے کہ کس کے روزے سب سے زیادہ ہوں گے؟ کیونکہ جس کے روزے زیادہ ہوتے عید کے روز وہ ہی زیادہ فخر محسوس کرتا اور باقی جتنے بھی دوست تھے وہ شرمندگی۔ اگرچہ ہم پر روز فرض نہیں تھے تب بھی ہم زیادہ روزے رکھنے کی کوشش کرتے جیسے یہ روزے ہم پر فرض ہیں اس وقت کا اپنا ہی ایک الگ مزہ ہوتا تھا۔
اب اگر سحری اور افطاری کی بات کرے تو اس کا بھی اپنا ہی ایک مزہ ہوتا۔ جب ہماری امی ہمیں منع کرتی کہ ایک روزہ رکھ کر دو روزے نہ رکھو تو ہمیں یہ بات بہت بری لگتی اور امی کے سامنے رو پڑتے کہ "اگر سحری کے لیے نہیں جگایا تو میں نہار منہ روزہ رکھوں گی”۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نہار منہ روزہ نہیں رکھ سکتے پھر بھی زور لگاتے کہ لازمی سحری کے لیے جگانا ہے اور اپنی امی کو د ھمکی ضرور دیتے۔ لیکن صبح اٹھ کر امی ہزار بہانے بناتی کہ سحری میں اٹھانے کی بہت کوشش کی لیکن تم اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تمہارے ابو نے تم پر پانی بھی چھڑکا لیکن تم نہیں جاگی اور ہم یقین کر لیتے کہ چلو صحیح ہے۔
"لیکن امی رات کو مجھے زور سے تھپڑ مارنا تاکہ میں اٹھ جاؤں اور اس طرح میری امی ہمیں خوش کروا دیتی”۔ اور جب ہمارا روزہ ہوتا تو ہم خوشی خوشی سکول جاتے اور سب سہیلیاں میں بیٹھ کر روزوں کی باتیں کرتے۔ جس کے روزے زیادہ ہوتے وہ فخر محسوس کرتی تھی۔ ہمیں اس ٹائم یہ بھی کہا جاتا کہ جو جتنے روزے رکھتا ہے عید کے دن اس کاچہرہ اتنا ہی پرنور ہوگا ۔ اس لیے ہم سب بچیاں یہ سوچ کر کہ سب سے زیادہ نور میرے چہرے پر ہو اور اللہ ہم سے راضی ہو تو ہم روزہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ نماز کا اہتمام کرتے۔ تسبیح پڑھتے کہ زیادہ ثواب مل جائے۔ دوسری بات یہ کہ جب بھی ہم روزہ رکھتے ہمارے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور ہمیں بہت زیادہ تعریفی کلمات سے نوازا جاتا تھا جس سے ہماری بہت زیادہ حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔
جس دن ہمارا روزہ نہیں ہوتا تو رات کا ٹھنڈا سالن اور سحری کے بچے ہوئے پراٹھے ہم کھا لیتے تھے۔ اس کے برعکس اج کل کے بچوں کے بغیر روزہ کے عیاشیاں ہیں۔ مند پسند کھانے ان کو مل جاتے ہیں۔ اس لیے بچے پورے رمضان کے مہینے میں ایک یا دو روزے رکھ لیتے ہیں اگر ہم پوچھیں بھی کہ اپ لوگ روزے کیوں نہیں رکھتے ؟ تو کہتے ہیں کہ ہمیں بھوک لگتی ہے۔ ہمارا سکن خراب ہوتا ہے۔ سکن کی فریشنس ختم ہو جاتی ہے اور عید کے دن پھر ہم بیمار بیمار سے لگیں گے۔ ہمارے انکھوں کے گرد حلقے پڑ جائیں گے۔ ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جو میری سمجھ سے دور ہیں۔
اج کل کے بچے تازہ روٹی گرم سالن کھاتے ہیں۔ ان کے پسند کی بریانی مائیکرونی انڈا پراٹھا شوارما اسی وقت تیار کی جاتی ہے اس لیے بچے روزہ رکھتے ہی نہیں کیونکہ ان کی ایکسائٹمنٹ ہوتی ہی نہیں اگر وہ روزہ رکھ بھی لے یا نہ رکھے ان کو وہی چیزیں اسان اور اسی وقت مل جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے وقتوں میں ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا تھا۔ دوسرا یہ کہ والدین خفا بھی ہوتے ہیں کہ بچوں کی پڑھائی بہت سخت ہوتی ہے اور ابھی ان پر روزے فرض بھی نہیں ہیں جب بچوں پر روزے فرض ہو جائیں گے تو وہ خود ہی رکھیں گے۔ روزہ رکھنے سے بچوں کی صحت بھی خراب ہوتی ہے۔ اس طرح کے کلمات ہم اکثر والدین سے بھی سنتے ارہے ہیں شاید اس کی وجہ دین سے دوری ہے۔