"جانوروں کی طرح مار کر کہتا چلو کہیں گھمانے پھرانے لے چلتا ہوں”
سعدیہ بی بی
پاکستان میں گھریلو تشدد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گھریلو تشدد پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنا اسان نہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسری خاتون اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ہر سال سسرالیوں اور رشتہ داروں کے ہاتھوں سینکڑوں خواتین کا قتل ہوتا ہے۔ گھریلو تشدد پاکستان میں ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے ایا ہے۔ اس سلسلے میں ایسی تشدد کا شکار ایک خاتون سے بات کی جن کی زندگی اس عمل کی وجہ سے بدل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی کے 15 سال ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارے جو مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بناتا تھا اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا تھا۔ میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں اور شادی سے پہلے بہت اچھی نوکری بھی کرتی تھی لیکن شادی کے بعد میرے شوہر نے مجھ سے نوکری چھڑوا دی۔ شادی کی ایک مہینے بعد ہی جھگڑے اور گالم گلوچ شروع ہو گئی اور جلد ہی نوبت مارپیٹ تک آگئی۔
میں نے گزارا کیا اور شادی کے ان برسوں میں میرے چار بچے بھی پیدا ہوئے۔ جب میں پہلی بار شوہر کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد اپنے والدین کے گھر گئی تو خاندان کے بڑوں نے صلح کروا کر مجھے واپس سسرال بھیج دیا۔ ہر مرتبہ مار کھا کر اتی تھی تو مجھے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تمہارے بچوں کا باپ ہے اور ان کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ الٹا مجھ ہی سے یہ سوال پوچھا جاتا کہ تم نے ایسا کیا کہا ، جو اس نے تمہیں مارا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ مرد کو انے والے غصے اور غصے میں اس کے پرتشدد ہو جانے کا معاشرہ اس حد تک عادی ہو چکا ہے کہ اکثر یہ پوچھنے کی بجائے کہ ‘ اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی ‘ سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ‘ عورت نے ایسا کیا کیا کہ مرد اتنا طیش میں اگیا ‘
وہ کہتی ہے کہ یہ سوال مجھے اندر سے چیر کر رکھ دیتا تھا۔ جسمانی تشدد کے ساتھ ذہنی اذیت بھی تھی جو کسی کو نظر نہیں اتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اکثر ان کے اپنے شوہر سے بحث اس لیے ہوتی تھی کیونکہ وہ نوکری کرنا چاہتی تھی۔ وہ مجھے اکثر کہتا تھا کہ اگر تم مر بھی جاؤ گی تو کسی کو کیا پتہ چلے گا ، ان سب باتوں سے تنگ آکر میں دو مرتبہ خود کشی کرنے کی کوشش کر چکی تھی ۔ ‘ مار پیٹ اور تکلیف میری زندگی کا معمول بن گیا تھا۔ وہ شخص مجھے ذہنی مریض لگتا تھا۔ جانوروں کی طرح مار کر کہتا تھا کہ چلو کہیں گھمانے پھرانے لے چلوں۔ میرے شوہر نے اپنی عیاشی میں میرا سارا زیور بھی بیچ ڈالا۔ ایک دن اس نے میرے منہ پر مکا مارا جس سے میرے ناک سے خون نکل ایا۔ اس کے بعد وہ مجھے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے گیا۔ یہ سب میرے بچے دیکھ رہے تھے۔ اس دن مجھے لگا کہ اب مجھے اپنے بچوں کے لیے اس ذہنی مریض سے جان چھڑوانی ہے کیونکہ وہ تو یہ سب دیکھ کر سیکھ رہے ہیں جس کے بعد میں نے وہ گھر چھوڑ دیا۔
ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ شادی کا رشتہ عورت کو معاشرے میں تحفظ فراہم کرتا ہے ، مگر کئی خواتین کے لیے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اکثر خواتین اس سوچ پر خاموش ہو جاتی ہیں کہ بس ایک مرتبہ غصے میں ا کر شوہر نے تھپڑ مار دیا لیکن ویسے نہیں مارتے ۔ ‘ تو ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو ایک مرتبہ تشدد ہوتا ہے تو وہ پھر بار بار ہوتا ہے اور یہ تشدد وقت کے ساتھ مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ‘ اگر کوئی انسان کسی قسم کا بھی نشہ استعمال کرنے کا عادی ہے تو اس میں بھی پرتشدد رویہ پایا جا سکتا ہے کیونکہ نشے کی حالت میں پرتشدد رویے کے ساتھ ساتھ دیگر اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ایسے حادثات کا شکار ہونے والی خواتین کا تعلق ہمیشہ غیر تعلیم یافتہ یا معاشی اعتبار سے کمزور طبقوں سے نہیں ہوتا بلکہ تعلیم یافتہ ، پیشہ ورانہ اور اپنے معاملات میں بظاہر ہوش مند خواتین بھی ایسے حالات سے متاثر پائی جاتی ہیں۔
عورتوں کی اس خاموشی کی بڑی وجوہات شاید یہ بھی ہیں کہ اس طرح کے تشدد کو معاشرے میں بڑی حد تک نارمل سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین اس لیے بھی اپنے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں اٹھا پاتی کیونکہ انہوں نے بچپن سے اپنے ماحول میں اپنے گھروں کی خواتین کے ساتھ جو سلوک دیکھا ہوتا ہے وہ اسے ہی ٹھیک سمجھتی ہیں۔ بعض معاملات میں خواتین کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ان کا نصیب ہے۔ ہماری عورتیں اس لیے اس چیز کو رپورٹ نہیں کرتی کہ ہم نے کبھی اس کو اس طرح کے مواقع فراہم ہی نہیں کیے کہ وہ ارام سے اسانی سے اپنے اس مسئلے کو بیاں کر سکیں۔ وہ جب پولیس کے پاس جائیں تو وہاں پر مرد حضرات بیٹھے ہوں گے جن کے سامنے بات کرنا ان کے لیے ایک عذاب ہوگا۔ اگر وہ تھانے میں چلی بھی جائیں اور رپورٹ بھی کر دے تو ان کو کہا جائے گا کہ اب اپ ہسپتال جائیں اور وہاں پر اپنا میڈیکل ٹیسٹ کروائیں جس سے ثابت ہو کہ کیا اپ پر واقعی ہی تشدد کیا گیا ہے۔ تو ایسے میں خواتین قانون کی مدد کیسے لیں۔
پاکستان میں ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں عورت اس چیز کو ارام سے اور باعزت طریقے سے رپورٹ کر سکیں۔ جب عورت اس چیز کو رپورٹ کر لے تو پھر ایسی عدالتوں کی ضرورت ہے کہ جہاں یہ مسئلہ فاسٹ ٹریک پر سنا جا سکے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تمام چیزوں پر اگاہی مہم چلائیں۔ کالجوں خاص طور پر خواتین کے کالجوں میں گریجویشن کے وقت ان کو یہ تمام چیزیں بتائی جائیں۔ اگر ہم ان چیزوں کے اوپر عمل درامد کریں گے تو ہم اس گھریلو تشدد جیسے عفریت پر قابو پا سکیں گے۔ ورنہ یہ چیزیں پاکستان کے ساتھ رہے گی اور اگر پاکستان کو اگے لے کر چلنا ہے تو ہمیں ابھی ان چیزوں کے اوپر قابو پانا ہوگا۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہے اور مختلف سماجی اور معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔