بلاگزلائف سٹائل

کیا کھانا پکانا صرف عورت کی ہی ذمہ داری ہے؟

 

رعناز

ہم ہمیشہ ایک لفظ بہت زیادہ سنتے ہیں وہ ہے جنسی برابری. لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ لفظ صرف کتابوں تک ہی محدود ہے۔ اس لفظ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ یہ سنتے رہتے ہیں کہ مرد اور عورت برابر ہے جو کام مرد کر سکتے ہیں وہ ایک عورت بھی کر سکتی ہے۔ اگر مرد کما سکتا ہے تو عورت بھی کما سکتی ہے۔ اگر عورت گھر کے کام کر سکتی ہے تو مرد بھی کر سکتا ہے۔ اگر مرد گھر کے فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے تو بالکل اسی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ اگر ایک مرد کو ایک بات بری لگ جائے اور وہ غصہ کر سکتا ہے تو اسی طرح عورت کو بھی غصہ کرنے کا حق ہے۔

لیکن یہ باتیں اور یہ حقوق صرف کتابوں تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم حقیقت کو دیکھیں تو مساوی حقوق کا تصور ہی نہیں ہے۔ کہیں پر عورت اپنے حقوق سے محروم ہے تو کہیں پر مرد۔ چلیں آپ مجھے بتائیں کہ کیا مرد اور عورت دونوں کو مساوی حقوق مل رہے ہیں ؟ کیا عورت کو وہ سارے حقوق مل رہے ہیں جس کی وہ حقدار ہے ؟ کیا عورت کو کبھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے اہم فیصلے کریں ؟ نہیں بالکل بھی نہیں ۔جتنی بھی کتابی باتیں ہیں حقیقت میں ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔

آئیے چلتے ہیں کچھ مثالوں کی طرف جس سے ہمیں واضح ہو جائے گا کہ آیا ہمارے معاشرے میں جنسی برابری پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔

مثال کے طور پر ایک ماں اپنی زندگی کے 20 یا 22 سال ایک بیٹی کی تربیت میں صرف کر دیتی ہے۔ صبح سویرے اسے سکول کے لیے تیار کرنا ،اس کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا ۔لیکن جب وہی بیٹی بڑی ہوتی ہے اور اس کا رشتہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ادھر ہمیشہ فیصلے کا حق اس کے باپ اور بھائیوں کو ہی حاصل ہوتا ہے نہ کہ ماں کو جس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنی بیٹی کی تربیت میں گزارا ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک عورت سارا دن گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے۔ گھر کی صفائی کرنا ،گھر والوں کا خیال رکھنا ،سب کے لیے کھانا بنانا ،کپڑے دھونا استری کرنا وغیرہ وغیرہ ۔یہ سارے کام ہمیشہ عورت کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔ مرد کو کبھی یہ گوارا نہیں ہوتا کہ وہ گھر کے کاموں میں عورت کا ہاتھ بٹھائے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ اس کی مردانگی کے خلاف ہے۔ اگر کوئی مرد یہ کام کرنا بھی چاہے تو وہ لوگوں کے ڈر سے نہیں کر پاتا کیونکہ لوگ پھر اس مرد کو ایک عجیب خطاب سے نوازتے ہیں کہ یہ جوروں کا غلام ہے۔ یہ عورتوں کے کرنے والے کام کر رہا ہے۔ تو یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ یہ کس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ گھر کے کام صرف عورت ہی کرے گی؟ کھانا پکانا صرف عورت کی ہی ذمہ داری ہے؟ اگر ہم ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں دیکھیں تو کھانا پکانے سے لے کر برتن دھونے تک کی ذمہ داری مردوں کی ہوتی ہے۔ تو اگر ایک ریسٹورنٹ یا ہوٹل میں یہ سارے کام مرد کر سکتا ہے تو پھر گھر میں کیوں نہیں؟ یقینا گھر میں بھی کر سکتا ہے لیکن یہ صرف اور صرف ہمارے معاشرے کا پریشر ہوتا ہے جو اسے یہ کام کرنے سے روکتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک غلط سوچ ہے کہ مرد مضبوط ہوتا ہے اور عورت کمزور۔ عورت رو سکتی ہے لیکن مرد نہیں۔ عورت ایموشنل ہو سکتی ہے مگر مرد نہیں ہو سکتا۔ یہ ساری باتیں کہیں پر بھی لکھی نہیں گئی ہے اور نہ ہی یہ سچ پر مبنی باتیں ہیں۔ اگر عورت گھر کے کام کر سکتی ہے تو مرد بھی اس قابل ہے کہ وہ گھر کے کام کرے۔ اگر مرد کمائی کر سکتا ہے تو عورت بھی کر سکتی ہے۔ اگر عورت ایموشنل ہو سکتی ہے تو مرد بھی ہو سکتا ہے یہ صرف اور صرف ہمارے معاشرے کا پریشر ہے اور کچھ بھی نہیں۔

لہذا ہمیں ہمیشہ مرد اور عورت کو برابری والے حقوق دینے چاہئے، اگر ہم مرد کو اس کے حقوق دے رہے ہیں تو عورت بھی اپنے حقوق کی حقدار ہیں۔ اسے بھی معاشرے میں وہ مقام دینا چاہیے جو کہ اسلام اور قانون نے اسے دیا ہے۔

رعناز ایک پرائیوٹ کالج  کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button