سماجی ہم آہنگی کیا ہے؟
شاہد خان
آج فون کی گھنٹی بجنے سے میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہمارے انگلش کے ٹیچر کی کال تھی۔ پہلے تو تعجب ہوا کہ اتنی صبح انہوں نے مجھے کال کیوں کی اور وہ بھی چھٹی کے دن۔ بہرحال فون اٹھایا تو سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا کہ آج ایک تربیتی پروگرام ہے جس میں تمہیں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے مجھے مزید کہا کہ میں تمہیں لوکیشن بھیج رہا ہوں اور جلد وہاں پر پہنچو۔
مجھے کسی بات کا کوئی علم نہ تھا بس اتنا پتہ تھا کہ ہمارے ٹیچر کسی این جی اوز سے کافی عرصے سے منسلک ہیں۔ بہرحال میں لوکیشن پر پہنچا تو ٹیچر میرے انتظار میں کھڑے تھے جنہیں دیکھ کر مجھے تھوڑی شرمندگی ہوئی کہ شاید میں دیر سے پہنچا۔ بہرحال ہم ایک بلڈنگ میں گئے اور وہاں ہمیں ایک مخصوص کمرے میں بٹھایا گیا۔
وہاں میری طرح اور بھی کئی لوگ آئے ہوئے تھے اور شاید ان کا بھی پہلا دن تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک خاتون نمودار ہوئی اور ہم سب سے مخاطب ہو کر بولی کہ "این جی اوز(NGO’s) کے اس تربیتی پروگرام میں آپ سب کو خوش آمدید” آج کا ہمارا تربیتی پروگرام کا موضوع سماجی ہم آہنگی ہے۔ میری توقع یہ تھی کہ اس تربیتی پروگرام سے سماجی ہم آہنگی کے بارے میں آگاہی ملے۔ بہرحال اس تربیتی پروگرام سے جو کچھ میں نے سیکھا وہ کچھ یوں ہے۔
سماجی ہم آہنگی کیا ہے؟
” سماجی ہم آہنگی ایک معاشرے کی وہ صلاحیت ہے جو معاشرے میں اختلاف اور تقسیم کے عمل پر قابو پا کر محرومی اور استحصال کے عمل کو کم سے کم کرتی ہے۔ تاکہ معاشرے میں توازن ،برابری اور سماجی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ "استحصال سے کون لوگ مراد ہیں” استحصال سے مراد معاشرے کے کمزور افراد ہیں۔ مثلا؛
▪︎ عورتیں اور لڑکیاں۔
▪︎ بچے۔
▪︎ خواجہ سرا افراد۔
▪︎ افراد باہم معذوری۔
▪︎ مذہبی اقلیتیں
اس سب کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں اور لڑکیوں کو گھر میں اختیارات نہیں دیے جاتے۔ انہیں اپنی رائے دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ ان پر مختلف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بچوں کو شفقت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ان پر زور زبردستی کی جاتی ہے انہیں خود فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔
معذور افراد بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ مگر انہیں اہمیت دینے کی بجائے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے انہیں حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں مختلف شعبوں میں کاروبار اور روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے یہ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں موجود خواجہ سرا افراد کو بھی ان کے جائز حقوق نہیں دیے جاتے۔ انہیں باقی افراد سے الگ سمجھا جاتا ہے ان کے پیچھے گلیوں اور بازاروں میں آوازیں کسی جاتی ہیں۔ ان کو ہر جگہ ہوس بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے انہیں آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا اور یہ لوگ معاشرے کے دوسرے افراد سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جو ہمارے معاشرے میں مختلف اقلیتیں ہیں۔ مثلا؛ ہندو، سکھ ،عیسائی وغیرہ ان کو خود سے الگ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے کسی بھی کام میں رائے نہیں لی جاتی نہ ہی ان کو کوئی اختیار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں نوکری، روزگار اور کاروبار کے موقع بھی بہت کم ملتے ہیں۔ اس تربیتی پروگرام سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور بہت استفادہ حاصل ہوا۔
کیا آپ بھی اسی طرح کسی تربیتی پروگرام کا حصہ بنے ہیں؟ اور اگر بنے ہیں تو آپ نے اس سے کیا سیکھا؟