کاسمیٹک سرجری کا رجحان
نازیہ
حسین اور پر کشش نظر انا کسے اچھا نہیں لگتا لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کی سرجریز سے گزرنا پڑے تو کیا آپ ایسا کرنے پر راضی ہونگے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں بیشتر لوگ ہاں کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے چہرے سے مطمئن نہیں ہوتے اور ایک عجیب قسم کی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر میں کاسمیٹک سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا صرف سلیبرٹیز اور مشہور شخصیات لیا کرتی تھی لیکن اب یہ شوق عام ہو چکا ہے اور لوگوں میں کافی تیزی سے پھیل رہا ہے جن میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس حوالے سے ایک پلاسٹک سرجن سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے۔ ہمارے پاس جوان سے لے کر بوڑھے لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو حقیقی جلد کے مسائل یا پھر بیماری ہوتی ہے جو مجبوری میں ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور اپشن نہیں ہوتا لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں۔ زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ آج کل مرد بھی پر کشش لگنے کے لیے ان کاموں میں پیش پیش نظر اتے ہیں۔ مردوں میں سب سے مقبول ہیئر ٹرانسپلانٹ ہے جو اپنے گنج پن کو کم کرنے کے لیے کرواتے ہیں۔
حال ہی میں ادا کار حمزہ عباسی کی اہلیہ نیمل خاور نے چہرے کی پلاسٹک سرجری کی تھی جس کو لوگوں نے بری طرح سے تنقید کا نشانا بنایا تھا کیونکہ پلاسٹک سرجری سے پہلے وہ کافی خوبصورت تھی جبکہ سرجری کے بعد اسکی خوبصورتی میں کمی آگئی ہے۔
ریسرچ کرنے کے دوران تو مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اس سرجری کی وجے سے تو کئی لوگ جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔ اخر یہ کاسمیٹک سرجری کیوں کی جاتی ہے؟
کاسمیٹک سرجری کسی طبی وجہ کی بنیاد پر نہیں کی جاتی بلکہ یہ تو اپنے جسم کے مخصوص حصّے میں تبدیلی لانے کے لیے کروائی جاتی ہے۔ لوگ یہ سرجری اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنے نظریات کے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے ہونٹ پسند نہیں تو کوئی اپنا جبڑا نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی ہے اور وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے سرجری کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ان سرجریز کے ذریعے اپنے چہرے کی جھریاں ختم کرواتے ہیں تو کچھ لوگ اپنے گنج پن سے نجات پانے کے لیے ٹرانسپلانٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
پاکستان میں تو آج کل بھنویں گھنی کروانا اور آئی لِڈ لفٹنگ کروانا ایک ٹرینڈ سا بن چکا ہے۔ خواتین میں مصنوعی پلکیں لگوانے کے ساتھ ساتھ بھنویں گنی کرنا اور رنگ کو گورا کرنے والے انجیکشنز کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایلیٹ کلاس کے علاوہ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس بھی اپنے جسم یا چہرے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے پسندیدہ فنکاروں کے چہرے دیکھ کر خود اپنے چہروں سے غیر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
بعض پروسیجرز اپریشن کے علاوہ بھی کئےجاتے ہیں جس میں مختلف کیمیکلز انجیکٹ کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ماتھے کی لکیروں اور آئی بیگز کو غائب کرنے کے لیے بوٹوکس کے انجیکشن لگوائے جاتے ہیں۔ لڑکیاں چہرے کی جھریوں اور ڈبل چِن سے نجات کے لیے فلرز کا استعمال کرتی ہے۔
اصل مسئلہ اس وقت سامنے پیش اتا ہے جب وہ چاہتے ہیں کہ وہ ویسے ہی نظر آئیں جیسے اور لوگ نظر آئے ہیں۔ ان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کو ہر انسان کی جلد اور جسم ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔
ہر چہرہ اپنی جگہ حسین ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی عمر کے مطابق اس کے اوپر ہونے والے تبدیلیوں اور اثرات کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ جو شکل اور جسم مل گیا ہے اس پر ہی خوش رہیں اور اسے تندرست و توانا رکھنے کی کوشش کریں اور اس میں مصنوعی تبدیلی لا کر اپنی شناخت ہر گز تبدیل نہ کریں۔
یہ لوگ نہ تو آج آپ سے مطمئن ہوں گے اور نا ہی کل۔ تو ان کی خاطر خود کو ان عوامل سے گزارنے کی کیا ضرورت۔ آپ جیسے ہیں ویسے ہی خوبصورت ہیں۔ اس خوبصورتی کو قبول کریں اور معاشرے کی توقعات کو ایک طرف رکھ کر اپنے لیے اپنی زندگی گزاریں۔