بلاگزلائف سٹائل

ورچوئل آٹزم اور اس کا علاج 

             

سندس بہروز                                     

چھٹیوں میں ہم سب اکٹھے ہوئے، گپ شپ کر رہے تھے کہ اتنی میں میری پھوپھو کا بیٹا روتے ہوئے آیا اور اپنی امی سے بڑے بھائی کی شکایت کرنے لگا کہ اس نے مجھ سے فون لے لیا ہے۔ وہ جب سے آیا تھا فون ہی میں مصروف تھا اور اگر کوئی اس سے فون چھین لیتا تو وہ آسمان سر پر اٹھاتا۔ میری پھوپھو نے بتایا کہ وہ اسی طرح گھر میں بھی کرتا ہے اور میں اس کے چڑچڑے پن سے بہت تنگ ہوں۔ چونکہ یہ صرف فون ہی سے خوش ہوتا ہے اس لیے میں اس کو ہر وقت فون دیتی ہوں۔

یہ بچہ بچپن سے چڑچڑا نہیں تھا بلکہ بہت ہی زیادہ خوش مزاج تھا۔ ہر ایک کے ساتھ خوش ہو جاتا تھا اور جس کے پاس چلا جاتا اس کے ساتھ کھیلنے لگتا مگر اب جب دیکھو یا تو وہ فون میں لگا رہتا ہے یا روتا رہتا ہے۔ وہ کارٹون وغیرہ دیکھ کر ہنستا ہے باقی میں نے اس کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب پھوپھو نے مجھے اس کے عادات کے بارے میں بتایا تو مجھے ماضی میں پڑھا ہوا ورچوئل آٹزم کا مضمون یاد آیا۔

ورچوئل آٹزم تین سے چار سال کے بچوں میں سکرین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بچے کھلی فضا میں کھیلتے ہوئے بہت کچھ سیکھتے ہیں مگر جب ان کے ہاتھ میں موبائل یا آئی پیڈ وغیرہ ہوتے ہیں تو ان کی صرف آنکھیں اور دماغ استعمال ہوتے ہیں اگر وہ ان چیزوں کے علاوہ کلی فضا میں کھیلتے ہیں تو ان کے تمام اعضاء استعمال ہوتے ہیں جس سے ان کی بھرپور نشو نما ہوتی ہے۔

ورچوئل آٹزم کے شکار بچے کسی بھی چیز پر زیادہ دیر تک دھیان نہیں دے پاتے۔ ان کے دھیان کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے اور ان کا دماغ بھی دوسرے بچوں کی نسبت کم ترقی کر رہا ہوتا ہے۔ چونکہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ زیادہ گلتے ملتے نہیں اس لیے ان کے بولنے کی مشق بھی نہیں ہوتی اور وہ دوسرے بچوں کی طرح نہیں بول پاتے۔

میں نے پھوپھو کو یہ سب بتایا تو وہ بہت فکرمند ہوئی کیونکہ یہ سب علامات ان کے بیٹے میں تھی مگر میں نے ان کو حوصلہ دیا کہ اب بھی وقت ہے۔ آپ کا بیٹا ٹھیک ہو سکتا ہے۔ بس اپ کو اس کو وقت دینا ہوگا۔

ایسے بچوں کو پیار سے یہ سمجھا دیا جاتا ہے کہ اسکرین کے استعمال کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ ان کی سکرین کے استعمال کو بالکل ختم کرنا چاہیے۔ڈاکٹرز کا تو یہ کہنا ہے کہ دو سال سے کم عمر کے بچوں کو بالکل سکرین سے دور رکھا جائے۔ بچے کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیا جائے اور ان کو پارک وغیرہ بھی لے جانا ضروری ہے تاکہ وہ جھولوں کے ساتھ کھیلے۔ رات کو سونے سے پہلے ان کو کہانی سنانا بھی بہت مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ ورچوئل آٹزم کے شکار بچے اکثر کھانے اور سونے کہ اوقات میں زیادہ سکرین دیکھتے ہیں۔ کھانے کے وقت بھی ان کو دوسری باتوں میں لگانا چاہیے تاکہ وہ سکرین سے دور رہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ سب بہت آسان ہوگا۔ یہ سب وقت لے گا مگر اس میں  آپ کے بچے کی صحت اور تندرستی ہے اور اس دوران والدین کا بھی بچوں کے ساتھ بہت اچھا رشتہ بن جاتا ہے۔

سندس بہروز انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button