بیوی بیمار پڑ گئی ہے تم دوسری شادی کر لو!
رعناز
بیوی بیمار پڑ گئی ہے تم دوسری شادی کر لو! یہ جملہ مجھے تین دن پہلے تب سننے کو ملا جب میری امی اچانک بہت زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔ انہیں اچانک ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کافی خراب ہو چکی ہے۔ میری امی مکمل طور پر بیڈ پر پڑ گئی تھی۔ وہ چل پھر نہیں سکتی تھی۔ میری امی کا دوبارہ سے چل پھرنا ہمارے لیے ایک معجزے کی مانند تھا۔ گھر میں ایک عجیب دکھ اور پریشانی کا سماں تھا۔ صبح ایک ڈاکٹر کو دکھانا تو شام کو کسی دوسرے کو۔ ایک ہفتے مسلسل یہی روٹین چل رہا تھا۔
امی کی عیادت کے لیے بہت سارے لوگ بھی آرہے تھے۔ کبھی رشتہ دار تو کبھی دوست احباب۔ سب میری امی کے لیے دعا کر رہے تھے کہ اللہ تعالی انہیں جلد سے جلد صحت یاب کرے۔ مگر ہر جگہ اچھے اور برے لوگ ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جو میری امی کے لیے دعا کر رہے تھے۔ وہیں پر کچھ لوگ عجیب عجیب باتیں بھی کر رہے تھےجیسا کہ ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ کافی بڑا ہوتا ہے۔ اس سے بہت کم لوگ ہی ریکور ہوتے ہیں۔ اس سے فالج کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔یہ ساری غلط باتیں ایک طرف لیکن اس میں ایک بات ایسی تھی جس نے مجھے یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کیا۔ ان میں سب سے بہت سارے لوگ میرے ابو کو کہہ رہے تھے کہ اب تو تمہاری بیوی بیڈ پر پڑ گئی ہے تو تم دوسری شادی کر لو۔
کسی ایسی لڑکی سے شادی کر لو جو تمہارے گھر اور تمہارے بچوں کو سنبھال سکے۔ جو تمہارے گھر کے سارے کام کرے کیونکہ تمہاری بیوی اب اس قابل تو ہے نہیں کہ گھر کے کام کاج کرے ۔تو یہاں پر میں اپنے معاشرے کے لوگوں سے کچھ سوالات کرنا چاہوں گی کہ کیا بیوی صرف گھر کے کاموں کے لیے ہوتی ہے؟ کیا اگر ایک بیوی بیمار پڑ جائے تو پھر اس کا شوہر دوسری شادی کرے گا؟ کیا ایک بیوی صرف گھر کی نوکرانی ہوتی ہے؟ کہ اگر وہ کام کاج کرنے کے لائق ہوگی تو ٹھیک اور اگر بیمار پڑ گئی تو پھر شوہر دوسری شادی کرے گا۔
افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے کی اس قدر منفی سوچ ہے۔ ہمیشہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ کیونکہ میرے ابو کو یہ بات عیادت کے لیے آئی ہوئی تین چار عورتوں نے ہی بتائی تھی۔ ایک بیوی کا کردار صرف یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ صرف اور صرف گھر کے کام کرے گی۔ وہ تب تک اس گھر کے لیے اہم ہوگی جب تک وہ گھر میں موجود لوگوں کی خدمت کرے گی اور جب وہ بیمار پڑ جائے گی تو پھر اس کے شوہر کو دوسری شادی کرنی پڑے گی۔ یعنی ایک بیوی کی حیثیت گھر میں صرف ایک نوکرانی جتنی ہوتی ہے کہ جب تک وہ اس قابل ہے کہ وہ گھر کو سنبھالے تو ٹھیک اور اگر بیمار پڑ گئی تو پھر شوہر کی دوسری شادی ۔واہ !کیا نظام ہے ہمارے معاشرے کا۔
اگر ایک عورت بیمار پڑ جائے تو اس کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے سامنے مثبت اور اچھی باتیں کرنی چاہیے۔ اپنے مثبت رویے سے بیمار انسان کو نارمل زندگی کی طرف واپس لے کے آنا چاہیے۔ بجائے ہم ان کے سامنے غلط باتیں لے کے بیٹھ جائیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر بیوی کے بیمار ہونے پر تم اس کے شوہر کو دوسری شادی کا کہتے ہو تو وہ بیوی اس سے کتنا متاثر ہو سکتی ہے۔ کتنا اس کو دکھ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اگر صرف اس بنا پر عورت پر دوسری شادی کرنی ہے کہ وہ کام کاج کرے کرنے کے قابل نہیں ہے تو پھر تو اس میں اور ایک نوکرانی میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔
لہذا ہمیں ایک بیوی اور نوکرانی کے عہدے کو پہچاننا ہوگا۔ اگر بیوی صحت مند ہے تب بھی اس کی حیثیت ایک بیوی کی ہے اور اگر وہ بیمار ہو جاتی ہے تو تب بھی وہ بیوی ہی ہوتی ہے۔ وہ اس گھر کی اتنی ہی حقدار ہوتی ہے جتنا وہ بیماری سے پہلے تھی۔ غرض بیماری کی صورت میں ہمیں یہ مشورہ دینا چاہیے کہ گھر کے لیے نوکرانی کا بندوبست کرے نہ کہ دوسری شادی کا۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔