بلاگزلائف سٹائل

محبت کا دن عزت سے منائیں

سندس بہروز

 

آج ویلنٹائن ڈے ہے۔ اس دن کو محبت کے اظہار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ نوجوان خاص کر اس دن کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ ایک وہی لوگ ہیں جو زندگی کو فیری ٹیل کی طرح جیتے ہیں۔ اس لیے کہ زندگی نے ان کو اپنا اصل چہرہ نہیں دکھایا ہوتا اور ان لوگوں کو لگتا ہے کہ محبت کا حق ذیلنٹائن ڈے پر سرخ پھول، چاکلیٹ اور چند تحفے دے کر ادا ہو جاتا ہے۔ جب یہ نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تبھی ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ محبت صرف ان تحفوں سے نہیں بلکہ عمل سے ظاہر کرنا ہے۔

اکثر کالج اور یونیورسٹی میں اس دن ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوتی ہے۔ اپنی روایات اور اقدار کی پرواہ کیے بغیر طلباء جوش و خروش سے اس دن کو مناتے ہیں۔ پہلے جو ملاقاتیں کالج اور یونیورسٹی کے کسی کونے میں چھپ کر ہوتی تھی اس دن کل عام ہوتی ہے جیسے اس دن وہ اپنے تعلق کا اعلان کر رہے ہو۔ لڑکیوں کے پاس سرخ رنگ کا کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے چاہے وہ ایک چھوٹا سا سرخ رنگ کا بال پوائنٹ ہو یا کسی لڑکی کا پہنا ہوا سرخ سکارف۔

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ محبت کو منانے کا صرف ایک ہی دن کیوں مختص ہے۔ محبت تو ہر روز منانے والی چیز ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ایک خاص دن اس کو شان سے منانے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ہم ہر روز تو محبت کو شان سے نہیں مناتے۔

اعتراض تو مجھے اس بات پر ہے کہ ویلنٹائن ڈے صرف گرل فرینڈ بوائے فرینڈ یا میاں بیوی ہی کیوں مناتے ہیں۔ کیا محبت صرف ان رشتوں تک محدود ہے۔ اگر یہ دن محبت کا ہے تو محبت تو بہن بھائی میں بھی ہے، ماں بیٹی میں بھی ہے، باپ بیٹے میں بھی ہے اور دوست دوست میں بھی ہے۔ تو پھر اس دن بھائی بہن کو سرخ پھول کیوں نہیں دے سکتا، بیٹی ماں کو چاکلیٹ دے کر وش کیوں نہیں کر سکتی اور دوست دوست کو ہیپی ویلنٹائن کیوں نہیں کہہ سکتا؟ اگر یہ محبت کو منانے کا دن ہے تو محبت تو پھر ہر رشتے میں ہے پھر تو چاہیے کہ ہم ہر اس شخص کو ویلنٹائن ڈے کا تحفہ دیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔

ایک اعتراض مجھے اس کے منانے کے طریقے سے بھی ہے۔ اس دن ہم اپنے اقدار اور اپنی روایتیں بھول جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کے کچھ اصول ہیں، کچھ طور طریقے ہیں۔ اور کچھ حدود ہیں جن میں رہتے ہوئے ہی ہم رشتے نبھاتے ہیں، چاہے وہ پیار اور محبت کے رشتے ہیں یا دوستی کے۔ ادب آداب کے ضابطوں کو پار کرنا تو سرے سے محبت کی بے حرمتی ہے۔ وہ ہمارے ایک استاد اکثر کہا کرتے تھے کہ سب کچھ کرو مگر عزت کے ساتھ۔ اس بات کی سمجھ مجھے آج آئی ہے۔ اس پر مجھے کسی شاعر کا کہا ہوا وہ شعر یاد آتا ہے۔

خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی  ہیں اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button