بارش کے موسم میں کاغذ کی کشتی نہیں بھولتی
سنبل ذوالفقار
بارش کا موسم لوگوں کے لیے خوشی اور تازگی کی لہریں لے کر آتا ہے۔ ان دنوں پشاور میں بارشیں خوب زور سے برس رہی ہے اور مجھے قتیل شغائی کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ:
’’دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ تک نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا ‘‘
میرا بچپن چونکہ دیہات میں گزرا ہے اور گاؤں کی تصویر سے میری بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں اسی لئے جب بارش ہوتی ہے تو دل اچھل اچھل کہ گاؤں جانے کی ضد کرتا ہے کیونکہ بارش سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا موقع کسی دیہات میں کچے مکان کی چھت پر بارش کے بوند کی ٹپ ٹپ سریلی آواز سے بھلی لگتی ہے۔
دیہات میں تو بارش کا نظارہ ہی قابل دید ہوتا ہے۔ ہر چیز نکھر نکھری اور دُھلی دُھلی نظر آتی ہے۔ پتا، بوٹا، چھول، شاخیں ہوا میں لہڑاتی ہو ئی ٹھنڈک بکھیرتی ہے ۔ نرم نرم بوندوں کا ٹی کو مہکاتا اُفق پر بکھیر کر حوا سوں پر چھا جاتی ہے۔ برساتی نالوں میں پانی کے ریلوں کا شور ایک عجیب روح پر ور سماں کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ گھٹائیں چھا جاتی ہے پھر اچانک بارش کا شروع ہو جانا ۔
جب ہم چھوٹے تھے تو جیسے ہی بارش ہوتی تھی ہم کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر پانی میں چھوڑ کر آتے تھے کشتی جیسے ہی پانی کی لہروں کے ساتھ آگے کی طرف بڑھتی جاتی تو پھر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا تھا۔ اور اگر کچھ دیر بعد کشتی ڈوب جاتی تو رنجیدہ ہونے کی بجائے پھر سے نئے جذبے کے ساتھ کشتی بناتے اور پانی میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جیسے جیسے کشتی بڑھتی جاتی ویسے ویسے اس کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے چیختے چلاتے اور خوشیاں منایا کر تے تھے۔
جب بھی بارش ہوتی ہے ہم اس میں بچپن کی یادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
بارش کے رُکتے ہی سب بہن بھائی ان میں تایا زاد بھی شامل ہوتے تھے ہم ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں لئے بیر بہوئی کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ انہیں چُن چُن کر شیشوں میں جمع کرتے تھے یہ مقابلہ ہوتا تھا کہ کس نے زیادہ بیر بہوٹیاں جمع کیں۔ سرخ مخملیں بیر بہوٹیاں اب تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔
ماں جی کے ہاتھوں طرح طرح پکوان کی فرمائش کرتے اور مزے لے کر نوش کرتے۔ اب آج کی کیا بات کریں آج تو بارانِ رحمت صحیح معنوں میں بارانِ زحمت ہوتا ہے۔
ایک مصنف نے کیا خوب لکھا ہے۔
’’کہ یہ بادل کبھی سر خوشی اور سر شاری لایا کرتے تھے۔۔۔
لیکن اب گیس ٹروبل اور بیزاری لے کر آتے ہیں۔
اب آسمان پر چھائی گھٹائیں دیکھ کر سب سے پہلا خیال یہی آتا ہے۔ بارش آئی ہے مگر بجلی چلی جائیں گی۔ گیس کے پریشر میں کمی واقع ہو جائیں گی خیر گیس کا مسئلہ تو عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے۔
میری تمنا ہے کہ ہمارے ملک میں بجلی گیس اور باقی تمام مسائل حل ہوجائیں تاکہ آنے والی نسلیں ہماری طرح کاغذ کی کشتی کے ساتھ بے فکر ہوکر کھیل سکیں اور قدرت کے ان حسین موسموں سے لطف اندوز ہوسکیں کیونکہ ہمیں تو آج تک بارش میں کاغذ کی وہ کشتی نہیں بھولتی۔