بلاگزلائف سٹائل

بی ار ٹی میں عورتوں کی نشستیں مرد حضرات سے کم کیوں؟

 

سعدیہ بی بی

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 2020 میں اپنی نوعیت کے پہلے بڑے منصوبے بس ریپڈ ٹرانزٹ ( بی ار ٹی ) بس سروس کا اغاز ہوا جس کا مقصد مسافروں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ پشاور میں بی ار ٹی خواتین میں کافی مقبول ہے۔ شہر میں 2016 میں ہونے والی ایک سروے کے مطابق 90 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر خود کو محفوظ محسوس نہیں سمجھتیں لیکن اب وہ بی ار ٹی میں سفر کرنے سے خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ ہر بی ار ٹی بس میں 8 سے 10 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں جبکہ دو گنا زیادہ تعداد میں نشستیں مردوں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ بس میں نارنجی رنگ کی 5 نشستیں ، جو جسمانی طور پر مخصوص افراد کے لیے مختص ہے لیکن ان پر بھی اکثر اوقات مرد مسافر براجمان نظر اتے ہیں۔

بس میں خواجہ سراؤں کے لیے ترجیحی نشستیں مختص کی گئی ہیں جن کی تعداد دو ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب کسی عوامی ٹرانسپورٹ میں اس برادری کے لیے بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ میں بھی بی ار ٹی میں روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتی ہوں لیکن جب سے بی ار ٹی سروس کا اغاز ہوا تب سے اج تک بیٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ میں نے ہمیشہ سفر کھڑے ہو کر ہی کیا ہے کبھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے مختص کی گئی نشستوں کی تعداد بہت کم ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے میں بی ار ٹی میں سفر کر رہی تھی۔ بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی اس لیے کھڑی ہو گئی۔ میرے ساتھ ایک خاتون تھی جو پریگننٹ تھی ان کی بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی اس لیے وہ کھڑی ہو کر سفر کر رہی تھی۔ جب بھی بس سٹیشن پر رکتی تو مزید خواتین اس میں چڑھ جاتی اور اس خاتون کی طبیعت خراب ہونے لگتی اور پھر اچانک جہاں وہ کھڑی تھی وہیں بیٹھ گئی۔ ان کی طبیعت مزید خراب ہوتی گئی بیٹھنے کے لیے کوئی سیٹ خالی نہیں تھی اس لیے وہ کسی دوسرے سٹیشن پر اتر گئیں۔ میں جب صدر کے سٹاپ پر اتری تو میں نے افس کا رخ کیا تاکہ میں معلوم کر سکوں کہ خواتین کے لیے مختص کی گئی نشستوں میں کمی کیوں ہے۔ میں نے دو سے تین لوگوں سے بات کی تو جواب ملا کہ مردوں کی نشستیں اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ وہ کام کرتے ہیں افس جاتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے تھوڑا عجیب لگا کہ کیا صرف مرد کام کرتے ہیں۔ تو میرا جواب تھا کہ اج کل مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی کام کر رہی ہیں۔

اب کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ صرف مرد ہی باہر نکل کر کام کرتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں۔ اج کل زیادہ تعداد میں خواتین جابز کرتی ہیں۔ بیشتر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بی ار ٹی سٹیشنز کے قریب واقع تعلیمی اداروں کی طالبات ان اداروں کی یا نجی ٹرانسپورٹ میں سفر کے بجائے ان بسوں میں سفر کو ترجیح دیتی ہیں۔ صرف طالبات نہیں بلکہ اساتذہ ڈاکٹر، نرسیں اور عام خواتین بھی بی ارٹی میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اب اگر بی ار ٹی میں خواتین کی نشستیں 8 سے 10 ہوں تو خواتین کیسے سفر کریں۔ نشستیں کم ہونے کی وجہ سے صبح 7 سے رات 10 بجے کے درمیان ہر بس میں بھیڑ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات دھکم پیل کی صورتحال بن جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرد حضرات خواتین کے راستے سے اتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کے لیے اکثر اوقات بس میں کھڑے رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں بی ار ٹی میں جتنی نشستیں مرد حضرات کی ہیں اتنی ہی خواتین کی ہونی چاہیے کیونکہ اج کل مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی  بڑی تعداد میں کام کرتی ہیں۔ حکام کو چاہیے کہ خواتین کے لیے مزید نشستیں مختص کریں تاکہ وہ ارام سے سفر طے کر سکیں۔

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہے اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔

نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔   

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button