بلاگزلائف سٹائل

اگر پانی مانگوں گی تو مقامی لوگ کیا کہیں گے؟

شمائلہ آفریدی

آج کے جدید دور میں خواتین ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گھاڑ رہی ہیں۔ کاروبار ہو یا انتظامی شعبہ جات ہو خواتین کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنا لوہا منوا رہی ہیں لیکن اج کے دور میں خواتین کا دوسرا رخ بھی ہے۔ یہ ایسی خواتین ہیں جو باہر کی دنیا سے بے خبر ہے دنیا میں کیا ہورہا ہے انہیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔

کچھ دن پہلے پشاور سے گاوں ارہی تھی ایک چھوٹا سا بچہ بہت رو رہا تھا۔ بس میں بیٹھے مسافر بچے کی طرف دیکھ رہے تھے جو ادھے گھنٹے سے رو رہا تھا۔ میں نے بچے کی والدہ سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ بچے کو پیاس لگی ہے پانی مانگ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ ڈرئیوار کو اواز دو کہ بچے کو پانی دے دیں۔ عورت نے اہستہ سے کہا کہ مجھے شرم اتی ہے ہمارے گاوں کا ڈرائیور ہے اور بس میں سارے مقامی افراد بیھٹے ہیں اب اگر پانی مانگوں گی تو مقامی لوگ کیا کہیں گے۔

بچہ پانی مانگ رہا تھا پچلھی سیٹ پر دوسری عمر رسیدہ خواتین بھی بیٹھی تھی لیکن کسی نے ڈرائیور سے پانی نہیں مانگا کیونکہ انہیں اس بات میں شرم محسوس ہورہی تھی۔
اس وقت مجھے غصہ بھی ارہا تھا دل میں سوچ رہی تھی کہ دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی اور قبائلی علاقوں میں اج کے دور میں بھی ایسی خواتین موجود ہیں جو ڈرائیور سے بچے کیلئے پانی مانگنے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔ میں اگے بڑھی اور ڈرائیور کو کہا کہ بس روک دو بچے کو پیاس لگی ہے اسے پانی چاہیے۔ بس میں بیٹھے مسافر مجھے گور گور کر دیکھ رہے تھے جیسا کہ میں نے کوئی نیا کام کیا ہو۔ ڈرائیور نے کہا کہ بچہ اس لئے رو رہا ہے بول دیتی، پاس رکھی ہوئی پانی کی بوتل دی اور بچے کو جیسے پانی دیا تو وہ چھپ ہوگیا۔۔۔۔

میں نے عورت سے سوال کیا کہ اپ صرف پانی نہیں مانگ سکتی تھی؟ خواتین نے کہا کہ بیٹی” پختو دہ ” یعنی پشتون ہے ہمارے ہاں برا سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں گھروں میں مرد کہتے ہیں کہ سفر کے دوران اور پر ایسے مقامی گاڑیوں میں باتیں نہیں کرو لوگ برا سمجھتے ہیں جان پہچان کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔

ان کی باتیں سن کر کافی حیران ہوئی اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسی صورت حال میں بولا کرے کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ان کا اعتماد اس قدر کم کیا جاتا ہے کہ ان کے زبان پر تالے لگ جاتے ہیں۔ یہ قصور ان کا نہیں تھا بلکہ یہ گھروں میں ہمارے مردوں کا تھا جن کو اس قدر چپ رہنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ بچہ پیاس سے مر بھی جائے تو نہیں بولنا چاہیے پختو ہے پختو وطن دہ یعنی پشتو ہے پشتونوں کا وطن ہے۔۔۔۔۔

اپنے گھروں میں خواتین کا اعتماد بڑھائے کہ وہ باہر معاشرے میں حالات کا مقابلہ کرسکے۔ اگر وہ پانی کیلئے بھی نہیں بول سکتی تو اس معاشرے کے لوگوں کا مقابلہ کیسے کریں گی۔ مرد حظرات کو چاہیے کہ اپنے گھر کی خواتین کا اعتماد بڑھائے انہیں باہر کے حالات سے مقابلہ کرنا سکھائے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ مرد حضرات ہمیشہ گھروں میں موجود ہوں گے اور باہر کے کام کریں گے۔

اکثر اپنے گاوں کی خواتین کو دیکھتی ہوں کہ ان میں اعتماد اس قدر کم ہوتا ہے کہ وہ باہر ضرورت سے جڑے کسی کام کیلئے جاتی ہے تو بہت زیادہ ڈرتی ہے گھبراتی ہے۔ یہ ڈر خوف ان کا ختم کرنا چاہیے۔ اردگرد کا ماحول بچپن ہی سے ایسا ہونا چاہیے جسمیں تربیت صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر کی جائے۔

والدین کو چاہئے کہ بچپن ہی سے اپنی بیٹیوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوے آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں تاکہ وه ہر قسم کا اعتماد حاصل کر سکیں وہ اپنے ڈر کوختم کرے اور باہر حالات کا مقابلہ کریں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button