کیا اب لڑکیاں بھی کندھوں پر کیمرہ رکھ کر رپورٹنگ کریں گی؟
رعناز
اوس بہ جینکو ھم پہ اوگو کیمری ایخی وی او رپورٹنگ بہ کوی۔ یہ وہ جملہ تھا جو میں نے ایک سٹوری کرتے ہوئے سنا۔ یہ پشتو زبان کا ایک جملہ ہے جس کا مطلب ہے کہ کیا اب لڑکیاں بھی کندھوں پر کیمرہ رکھ کر رپورٹنگ کرے گی۔ جس طرح زندگی کے اور شعبوں میں عورت کے خلاف غلط باتیں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح صحافت میں بھی ہوتی ہے بلکہ صحافتی دنیا میں تو کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔
عورت کہیں پر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر اس کے کردار کے حوالے سے باتیں کی جاتی ہے۔ ہمیشہ عورت ہی غلط دامن ہوتی ہے اور مرد صاف دامن کیونکہ ہمارے معاشرے میں مرد کا تو کوئی کردار ہوتا ہی نہیں ہے یہ سارا کیچڑ تو عورت کے حصے میں ہی آتا ہے۔
خیر یہ تو ہو گئی عورت اور مرد میں فرق کی باتیں۔ آب آتے ہیں اس موضوع کی طرف جو کہ میرے آج کے بلاگ کا عنوان ہے۔ اس عنوان پر بات کرنے سے پہلے میں یہ چیز واضح کرنا چاہوں گی کہ اگر اس بلاگ میں لفظوں کا ایک محدود مقدار متعین نہ ہوتا تو یقین کریں میں بہت کچھ اس پر لکھنا چاہتی تھی ۔خیر شروعات یہاں سے کر لیتی ہوں کہ ہمیشہ فیمیل جرنلسٹ کو غلط نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ اس کے کردار کو غلط مانا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ فیمیل جرنلسٹ ٹھیک عورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ میڈیا میں کام کرتی ہے۔ میڈیا میں کام کرنے والی لڑکی ہمیشہ غلط ہی ہوتی ہے۔ وہ آزاد خیال ہوتی ہے ۔وہ زبان کی بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ غلط کردار اور منفی سوچ کی مالک ہوتی ہے۔
مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہوتا ہے ہمارے معاشرے کی اس غلط سوچ پر جو کہ ان کی ایک خاتون صحافی کے بارے میں ہوتی ہے۔ جب ایک میل جرنلسٹ مائک اور کیمرہ اٹھاتا ہے اور کوئی اچھی رپورٹ بناتا ہے تو اسے کچھ ایسے الفاظ سے سراہا جاتا ہے۔ شاباش ،زبردست ،بہترین، ہم آپ پر فخر کرتے ہیں۔ مگر جب یہی کام ایک فیمیل جرنلسٹ کرتی ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بد کردار ہے۔ اسے شرم نہیں آتی کہ اتنے مردوں کے درمیان کھڑی ہو کے رپورٹ بنا رہی ہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کے لوگوں کی غلط سوچ کی انتہا۔
میں تو کہتی ہوں ان لوگوں کو ہی شرم کیوں نہیں آتی جو ایسی باتیں کرتے ہیں جو کہ ایک فیمیل جرنلسٹ کی بہادری ،محنت اور خود اعتمادی کو بد کرداری اور بے شرمی کا نام دیتے ہیں۔ مردوں کے درمیان کھڑی ہو کے ایک لڑکی کا کوریج کرنا بڑی بات ہوتی ہے کیونکہ جب ایک مرد رپورٹ بناتا ہے تو اس کے لیے کام آسان ہوتا ہے لیکن جب ایک لڑکی بناتی ہے تو اس کو لوگوں کی گندی نظروں سے بچنے کے ساتھ ساتھ اچھا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ ہمارے پورے ملک میں ہے لیکن سب سے زیادہ ہمارے پختون بیلٹ میں ہے۔ جدھر ایک عورت کا گھر سے باہر نکلنا اور میڈیا میں کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایک عورت کا صحافی ہونا تو کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اس کا تو اس کے کردار سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر ہم لوگوں کی غلط سوچ آخر کیوں؟
کیوں ایک خاتون صحافی کے کردار پہ انگلی اٹھائی جاتی ہے؟ کیوں اس کی خود مختاری اور بہادری کو غلط لباس پہنایا جاتا ہے ؟ اگر اس عورت کے ماں باپ کو اس پر اعتماد ہے اسے باہر جانے اور کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے تو پھر یہ معاشرہ کون ہوتا ہے اس پر پابندی لگانے والا یا اس کی کردار کشی کرنے والا۔ ہمیں اپنی یہ غلط سوچ ختم کر دینی چاہیے۔ خواتین کو سپورٹ کرنا چاہئے اسے سراہنا چاہیے۔ اسے سپورٹ کرنا چاہیے بجائے کہ اس پر انگلی اٹھائی جائے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔