پھر ہم بڑے ہو گئے اور سب کچھ بدل گیا
رانی عندلیب
میں جب چھوٹی تھی تو بڑی ہونا چاہتی تھی لیکن مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ بڑی ہو کر وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آ جائے گی۔ بلکہ ہر چیز بے رونق اور پھیکی ہو جائے گی۔ کسی حد تک رشتے بھی بے معنی اور بناوٹی ہو جائیں گے۔
پچھلے دنوں اپنے بچپن کے دن یاد کرکے دل کو سکون سا ملا۔ وہ دوستیاں بھی اتنی پر خلوص ہوا کرتی تھیں کہ جیسے سچے خون کے رشتے ہوں لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ دوستیاں بھی کہی کھو گئیں۔
وہ بھی کیا خوب صورت دن تھے، جب ہم سب سہیلیاں سکول کے بریک ( تفریح) میں کھیلا کرتے تھے۔ ذات پات اور امیری غریبی کو کہیں پیچھے چھوڑ کر ایک ہی بینچ پر سب بیٹھتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے لگاتے اور جب کلاس کے دوران ٹیچر غصہ کرتیں اور خاموش ہونے کا کہتیں تو ہم سب سہیلیوں کی ہنسی روکنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔یہاں تک کہ ٹیچر سے مار بھی کھا لیتے۔ ہم اپنی مار کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے۔
گھر آتے تو محلے میں بھی سہلیاں تھیں۔ سکول کا کام ختم کرنے کے بعد سہ پہر سے رات گئے تک صحن میں کھیلا کرتے تھے، ہمارا پسندیدہ کھیل ’پکڑم پکڑائی تھا جس میں سب ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے۔ اکثر کھیل کے دوران لڑائی ہو جاتی اور سب بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے کہ ’اب میں تمہاری سہیلی نہیں بنوں گی اور اپنی سہیلی کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو اتنا کس کے کھینچھتے کہ خدا نخواستہ ایک دوسرے کی انگلی جڑ سے نکال نہ لے اور ساتھ میں کہتے کہ” پکی کٹی ہو گئی”
اس کے علاوہ ہم موسموں کے مطابق کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ہر موسم میں ہمارے کھیل بھی الگ ہوتے۔ سردیوں میں ہم (چندرو) کھیلتے۔ اور گرمیوں میں گیند گھٹیاں کھیلتے۔ ہمارے کھیل ہر وقت بغیر ہار جیت کے ختم ہوتے۔ کیونکہ کھیل کے اختتام پہ نہ صرف لڑائی ہوتی بلکہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی۔ اکثر ایک دوسرے کو بالوں سے کھنچتے۔ لیکن گھنٹہ گزرنے کے بعد پھر وہی ہنسی مذاق اور نئے سرے سے کسی دوسرے کھیل میں مشغول ہو جانا۔ بچپن کے یہ عجیب او غریب قصے کہانیاں۔ بغیر کسی لالچ کے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سچی دوستیاں بھی دنیا کی بے ثباتی میں کہیں کھو گئی۔
ان یادوں کی آہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے جس سے اس حسین دور کی یادیں میرے من اور ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں کہ رات کی لڑائی صبح ہوتے ہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم تمام سہلیاں دل صاف کرکے جھگڑے اور دشمنیاں بھلا کر دوستی کر لیتے تھے۔چاند رات پر تمام سہلیاں ایک گھر پر مہندی لگانے کے لیے جمع ہونا۔ گھنٹوں گپے لگانا۔ اور اگر دیر ہو جاتی تو سہیلی کے والد سب بچیوں کو ان کے گھر چھوڑ کے اتے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ پھر ہم بڑے ہو گئے اور سب کچھ بدل گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ جہاں پیسوں کی لالچ نہ ہو خوش حالی ہو کسی قسم کی کوئی جیلسی نہ ہو، دوست بناتی ہے۔
اور جب بدحالی اتی ہے تو وقت کے ساتھ بدلنے والی دوستی مطلبی دوستی کہلاتی ہے۔ آج دوستی کا لفظ تو موجود ہے لیکن اس کی چاشنی بہت کم ہو چکی ہے کیونکہ وقت گزاری کے اور بہت سے ذرائع آس پاس موجود ہیں۔ اپنوں کے لیے تو سنتے تھے کہ ’خون سفید ‘ ہو گیا لیکن اب یہ مقولہ دوستوں کے لیے بھی صحیح ہے۔