بلاگزلائف سٹائل

معیار پر پورا اترنے کی جدوجہد

                                      

سندس بہروز                                                                                                                                           

“تمہاری روٹی کبھی گول نہیں ہوتی، “مہمان آئے ہوئے ہیں، روٹی گول بنانا ورنہ ہنسیں گے ہم پر.” لڑکی تم گول روٹی بنانا کب سیکھو گی۔”

یہ اور ان کے ساتھ اور بہت سے جملے کئی خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر سننے کو ملتے ہیں۔ میری ہر دوسری صلاحیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجھے میری روٹی کی شکل سے جانچا جاتا ہے۔ مگر اب میں بھی بضد ہوں کہ میں گول روٹی نہیں سیکھوں گی۔(کیونکہ مجھ سے نہیں بنتی۔) اور ایسا صرف میرے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ ہمارے معاشرے میں رہنے والی ہر عورت کو خود کو منوانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

یہ صرف اس معاشرے میں رہنے والی حوا کی بیٹی کا مقدر نہیں بلکہ یہاں ہر ایک کے لئے اسی طرح کے معیار ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا کوئی معصوم بچہ جس کو شروع سے ہی یہ بتا دیا جاتا ہے کہ وہ کلاس میں اول آئے گا، سائنس کے مضامین پڑھے گا، کھیل کود میں وقت ضائع نہیں کرے گا تو وہ ایک کامیاب انسان بنے گا؟

یہ سب معیار اس پدر شاہی معاشرے کے آقاؤں نے بنائے ہیں۔ ان پر پورا اترنے پر ہی یہ معاشرہ عورت کو قبول کرتا ہے ورنہ تو عورت کو خود کو منوانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ معاشرہ اس عورت کو قبول کرتا ہے جو اپنی نگاہیں نیچی رکھتی ہے، آواز نیچی رکھتی ہے، با حیا ہوتی ہے، گھر کے سب کام نہ صرف جانتی ہے بلکہ ان کو بخوشی انجام بھی دیتی ہے چاہے طبعیت اجازت دے یا نہ دے۔ صبر کرتی ہے اور اپنے عزتِ نفس کی پرواہ کئے بغیر اپنے گھر والوں کی خدمت کرتی ہے۔ اس معاشرے کی آئیڈیل عورت کی کوئی خواہش نہیں ہوتی کیونکہ وہ اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے۔ یہ تو میں نے چیدہ چیدہ صفات کا ذکر کیا ہے ورنہ ان کی فہرست کافی لمبی ہے جو اگر میں لکھنے بیٹھوں توکتاب بن جائے گی۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسی عورتیں جس کمپنی میں تیار ہوتی ہے ان کی سربراہ اکثر ایک عورت ہوتی ہے۔ لیکن اس میں قصور ان کا بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ان صفات کے بغیر اس معاشرے میں رہنا محال ہے۔  کیونکہ دوسرا راستہ اختیار کرنے کے لیے کٹھن محنت کی ضرورت ہے اور اس میں بھی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔

ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی خاصیت ضرور ہوتی ہے جو اس کو دوسرے انسانوں سے مختلف بناتی ہے اور اس کو انفرادیت بخشتی ہے۔ مگر ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگرہم ہر انسان کو ایک ہی سانچے میں ڈال کر اس کو پرکھیں گے تو کیا خالقِ حقیقی کی پیدا کی گئی اس خوبصورت تخلیق کی انفرادیت ختم نہیں ہو جائے گی؟ کیونکہ دنیا کا تو حسن ہی ورائٹی سے ہے۔

جب ہم لوگوں کو ان سانچوں میں ڈھلنے پر مجبور کرتے ہیں تو ان کی شخصیت کے پرکشش پن کو ختم کرتے ہیں جس سے وہ بجھ جاتے ہیں۔ اس مسلسل کوشش سے ان کے چہروں پر تکھن نمایاں ہوتی ہے اور وہ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بہت سی عورتوں کو اس جدوجہد میں ناخوش پایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس خاندان کا ہر شخص زندگی سے بیزار دکھائی دیتا ہے کیونکہ گھرہنستی عورت کے گرد گھومتی ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں فٹ اور خوش نہیں ہے تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی خوش نہیں رکھ پائے گی۔

دنیا کا تو حسن ہی ورائٹی سے ہے۔ اگر دنیا سے سارے رنگ مٹا کر اس کو ایک ہی رنگ میں رنگا جائے تو کیا آپ ایسی دنیا کو پسند کریں گے؟

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی  ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button