بلاگزلائف سٹائل

استانی کے ایک تھپڑ نے مزمل کی زندگی چھین لی

 

انیلا نایاب

نا جانے کتنے مزمل پرائیوٹ سکول کے ہاتھوں بے رحمی کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے ہونگے۔ لیکن یہاں ذکر 5 سالہ مزمل کا کرتے ہیں جو ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔

پشاور شہر کا مزمل ہر ماں باپ کی طرح اپنے والدین کا لاڈلہ اور آنکھوں کا تارا تھا۔ بڑے امید کے ساتھ ایک نجی سکول میں داخل کیا تھا کہ بیٹا بڑا ہوکر ڈاکٹر ، انجینئر یا کوئی افسر بن کر والدین اور ملک کی خدمت کرے گا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

5 سالہ مزمل نجی سکول کے کلاس پریپ کا طالب علم تھا۔ پتہ نہیں کون سا جرم کیا تھا کہ کلاس ٹیچر نے سر پر اتنے زور سے مارا جو موت کا سبب بن گیا۔ سکول سے گھر آکر لاڈلہ مزمل ماں کے گلے لگ کر رو پڑا امی آج سر پر استانی نے سخت مارا ہے اور اس وقت سے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔

والدہ کے مطابق گھر آنے کے بعد مزمل کی طبیعت مزید خراب ہوئی۔ تقریبا ایک گھنٹہ بعد الٹی کی جس کی وجہ سے طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ مزمل کو ہسپتال لےجایا گیا۔ ہسپتال میں ڈاکٹر کے معائنے کے بعد مزمل کو داخل کیا گیا۔ داخل ہونے کے بعد آہستہ آہستہ مزمل کی قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق یہ سب سر پر اندرونی چوٹ کی وجہ سے ہوا۔

چند دن بعد زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد اخرکار مزمل زندگی کی بازی ہار گیا اور وہ اس دنیا سے چلا گیا۔

مزمل کی والدہ اس بات کو بھی بار بار یاد کرکے روتی ہیں کہ استانی کے تھپڑ کے بعد میرے بیٹے ، میری ننھی جان نے سکول سے چھٹی تک کتنی تکلیف برداشت کی ہوگی یہ سوچ کر دل غم سے پٹھتا ہے۔

یہ کیسا تعلیمی ادارہ ہے جو کسی معصوم بچے کی جان لیتا ہے تعلیمی ادارہ تو بچوں کی تربیت کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں تو لگتا ہے کہ اساتذہ کو خود اخلاقیات کا درس دینا چاہئے۔ والدین سرکاری سکولوں کے مقابلے میں نجی اداروں کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ محفوظ ماحول بھی ملے انکا بہت زیادہ خیال رکھا جائے۔

والدین ماہانہ اتنی فیس اس لیے تو نہیں دیتے کہ ان کے بچوں کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ 7 سال تک تو اسلام نے بھی بچوں کو نماز کا پابند نہیں بنایا اس عمر میں تو بچے پر اللہ کا بھی حق نہیں ہوتا۔ مزمل کے گھر والے بتاتے ہیں کہ بے ہوشی میں بھی مزمل کی چیخ نکل جاتی کہ مس شازیہ نہیں مارو مجھے۔ اتنا ڈر اتنی وحشت، وہ بھی ایک معلم سے۔

دوسری جانب سرکاری سکول کی ایک استانی صائمہ کہتی ہیں کہ وقت بدل گیا ہے سرکاری سکول کا تعیلمی نظام بہت بہتر ہوگیا ہے۔ انکا کورس پرائیویٹ سکول سے کافی بہتر اور اچھا ہے۔ حکومت کی جانب سے سخت احکامات ہیں کہ کوئی بھی معلم کسی بھی طالب علم کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا اس لئے تمام والدین سے اپیل کرتی ہیں کہ اس کلچر کو ختم کریں کہ نہیں بچوں کو پرائیوٰت سکول میں پڑھانا ہے۔

وہ مزمل کے کے حوالے سے کہتی ہیں کہ سرکاری ملازم تو بآسانی حکومت کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے کسی بھی غلطی کی صورت میں پوری انکوائری ہوتی ہے جبکہ اس قسم کے کیس میں تو نجی ادارے پہلے تو مانتے ہی نہیں کہ انکی کوئی غلطی ہے اور ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی نہیں نکلا کسی بھی کیس کے حوالے سے۔ پرائیوٹ سکولز کے سیلری مسائل سے لے کسی بھی وقت استاد کو فارغ کرنے تک۔

اس لئے مس صائمہ چاہتی ہیں کہ تمام والدین ان کے ساتھ تعاون کریں اور پرائیویٹ سکول کی روایت کو بدلنے میں حکومت کے ساتھ مل کر کوشش کریں۔ بچوں سرکاری سکول میں داخل کرکے ثابت کریں کہ سرکاری سکول کا کورس اور عملہ پرائیویٹ سکول سے بہتر ہیں۔

کوئی بھی موازنہ کریں تو پتہ خود بخود چل جائے گا آج کل سب سے پڑھے لکھے اساتذہ سرکاری سکول کے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے قابلیت ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد کافی قابل لوگ محکمہ تعلیم مییں بھرتی ہو رہے ہیں۔

نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button