16 دسمبر پشاور کا سیاہ ترین دن
مقدس
16 دسمبر 2014 پاکستان کے شہر پشاور کے لیے ناقابلِ تصور رنج و غم کا دن تھا۔ اس دن معصوم بچوں کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ آرمی پبلک سکول پر حملے نے پشاور کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
حملے کی خبر پھیلتے ہی پشاور کی سڑکوں پر سوگ کا سماں تھا۔ ہر گلی غم کا راستہ بن گئی۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھی۔ مائیں غم سے نڈھال تھی تو بہنیں خون کے آنسو رو رہی تھی۔ غمزدہ والدین اور بکھرے ہوئے خاندانوں کے دل دہلا دینے والے مناظر نے مایوسی کی ایسی تصویر کشی کی جو شاید ہی کوئی بھول سکے۔
اس دن پشاور میں جو درد کا سماں برپا ہوا وہ محض جسمانی نہیں تھا یہ ایک روحانی زخم تھا جس نے شہر کی روح کو جھنجھوڑ دیا۔ ایک اسکول، ایک ایسی جگہ جہاں خوابوں کی پرورش کی جاتی ہے، اور مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے اس کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اس ظالمانہ عمل نے ایسے داغ چھوڑے جو فوری نقصان سے کہیں زیادہ بڑھ گئے اور پشاور کے منظر نامے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
تاہم، اس سانحے کا سامنا کرتے ہوئے، پشاور نے لچک کا مظاہرہ کیا جو انسانی روح کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔ مشترکہ غم سے نمودار ہونے والا اتحاد واضح تھا، جس نے اپنے لوگوں کے درمیان یکجہتی کی پٹی باندھی تھی۔
یاد رہے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن سانحہ اے پی ایس کو 9 سال مکمل ہو گئے۔ دہشتگردوں کے حملے میں پرنسپل، اساتذہ، طلبہ اور دیگرعملے سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے۔
پشاور کی تاریخ کے اس سیاہ باب نے انسانی تجربے کی متضاد نوعیت کو بھی روشن کیا۔ حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کا عزم مزید بڑھ گیا اور انہوں نے کاروائیاں تیز کردی۔ حملے نے سیاسی بیانیہ کو نئی شکل دی، جس نے سیکورٹی اور استحکام فراہم کرنے میں فوج کے اہم کردار کو اجاگر کیا۔
اس سانحہ سے حاصل ہونے والے اسباق گہرے اور آفاقی ہیں۔ یہ مصیبت کے وقت اتحاد کی اہمیت، انتہا پسندی سے دوچار خطوں میں امن کی اہمیت، اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ ہمیں اپنے غم کو مثبت عمل میں بدلنا چاہیے۔ انتہا پسندی، عدم برداشت اور تشدد کے خلاف متحد ہونا ہمارا فرض ہے۔ تعلیم، افہام و تفہیم اور ہمدردی کو فروغ دے کر، ہم ان لوگوں کی یاد کا احترام کر سکتے ہیں جنہوں نے اس سیاہ دن میں اپنی جانیں گنوائیں۔
یہ دن نہ صرف ہمیں غم یاد دلاتا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم متحد ہوکر کس طرح دہشت گردی کو مات دے سکتے ہیں۔ کس طرح ملک کو امن کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔