لیوی ٹیکس کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں لاگو کیا جاتا ہے؟
سعدیہ بی بی
دراصل لیوی ٹیکس ایک سپیشل قسم کا ٹیکس ہوتا ہے جسے سپر ٹیکس بھی کہتے ہیں۔ لیوی ٹیکس سے مراد افراد، کاروبار یا لین دین پر حکومت یا دیگر مجاز اداروں کی طرف سے ٹیکس کا نفاذ ہے۔ یہ عام طور پر عوامی اخراجات کے لیے آمدنی پیدا کرنے، حکومتی پروگراموں کی فنڈنگ، یا روپے کو متاثر کرنے کے لیے نافذ کیا جاتا ہے ۔ ٹیکس کی مختلف شکلیں ہیں جیسے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ لیوی ٹیکس کا محرک حکومت کو ضروری خدمات، انفراسٹرکچر اور سماجی کاموں کو برقرار رکھنے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ حکومتیں ٹیکسوں سے نہ صرف آمدنی پیدا کرتی ہیں بلکہ یہ سماجی اور اقتصادی مقاصد کے حصول کا زریعہ بھی ہیں۔
ٹیکس پالیسی حکمرانی کا ایک اہم پہلو ہے، حکومتیں بدلتے ہوئے معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے ٹیکس کے ڈھانچے کا مسلسل جائزہ لیتیں اور اِسے ایڈجسٹ کرتی ہیں۔ جب صوبوں سے زیادہ پیسہ وفاق کو نہیں ملتا تو پھر حکومت اس طرح کے ٹیکس کی طرف جاتی ہے۔ اس وقت پیٹرول پر جنرل ٹیکس صفر ہے مگر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ سرچارج 60 روپے ہے۔ اب یہ لیوی بھی ٹیکس ہی ہوتا ہے مگر اِس پر صوبے اپنا حق نہیں جتا سکتے اور اس طرح یہ پیسہ وفاق کے پاس ہی رہتا ہے۔ اصل مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا ہے کیونکہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے کئی گنا زیادہ سالانہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ تنخواہ کا بڑا حصہ ٹیکس میں چلا جاتا ہے اور دوسری طرف فی لیٹر پیٹرول پر علیحدہ اپنی جیب سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
جہاں تنخواہ دار طبقے سے حکومت نے ٹیکس وصول کیا ہے وہیں درآمدکنندگان سے بھی ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔ ٹیکس نظام کی سب سے بڑی خامی ہی یہی ہے کہ کم آمدنی والوں پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے یعنی غریب آدمی امیر سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔ دفاع کے اخراجات ہوں یا روزمرہ کے معاملات، قرضوں کی ادائیگی ہو یا دیگر فرائض کی انجام دہی، اِن سب کاموں کے لیے پیسہ تو حکومت کو چاہیے اسی لیے اس قسم کے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے رواں برس جولائی میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس کے تحت ایک لیٹر پر پی ڈی ایل کی مد میں 60 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ٹیکسیشن گورننس کا ایک بنیادی پہلو ہے جو حکومتوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے درکار مالی وسائل فراہم کرتا ہے۔ ٹیکسوں کا ڈھانچہ اور نفاذ سماجی اقدار اور اقتصادی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے جس میں ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مسلسل ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام شہریوں پر عائد ٹیکس کے اثرات کثیر الجہتی ہو سکتے ہیں جو ان کی مالی بہبود اور روپے کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ ٹیکس پالیسیاں سماجی اور اقتصادی اہداف کو نافذ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتی ہیں تاکہ ٹیکس دہندگان اپنی آمدنی کی درست اطلاع دیں اور مناسب ٹیکس ادا کریں۔
حکومت روپے پر اثرانداز ہونے کے لیے ٹارگٹڈ مراعات یا سزائیں متعارف کروا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پرتعیش اشیاء یا ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں پر زیادہ ٹیکس کا مقصد مخصوص سماجی خدشات کو دور کرنا ہے۔ لیوی ٹیکس یکساں نہیں ہیں اور افراد پر اِن کے اثرات کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ٹیکس نظام کو معاشی حقائق، سماجی مقاصد اور ملک کی مجموعی آمدنی میں مناسب حصہ ڈالنے کے لیے افراد کی صلاحیت پر غور کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ لیوی ٹیکس مالیاتی پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں جو کہ معیشت کو متاثر کرنے کے لیے حکومتی محصولات اور اخراجات کا استعمال ہے۔
لیوی ٹیکس کا خاتمہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں قانون سازی اور انتظامی کاروائیاں شامل ہیں۔ ٹیکس کو ختم کرنا ایک نتیجہ خیز فیصلہ ہے جس کے لیے مالی ذمہ داری اور آبادی کی ضرورت اور خدشات کو دور کرنے کے درمیان محتاط توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز بھی لکھتی رہتی ہیں۔