اگر بیٹی کی شادی کرادی تو ہمارا کیا ہوگا؟
حدیبیہ افتخار
بیٹیاں جب بڑی ہوجاتی ہے تو ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا اچھے خاندان میں رشتہ ہو جائے اور بیٹی بیاہ کے اپنے گھر کی ہو جائے اور ان کی یہ بڑی ذمہ داری پوری ہو۔ ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بیٹی شوہر کے گھر پر خوش زندگی گزارے ان کا شوہر تا عمر ساتھ نبھانے والا ہو۔ ان کا بہترین ہم سفر ہو جو زندگی کے ہر موڑ پر ان کی بیٹی کے ساتھ کھڑا ہو۔
ہر ماں باپ ایسے ہی خواہشات اپنے بچوں کے لئے رکھتے ہیں۔ مگر آپ کو سن کر حیرانی ہوگی کہ کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کو خود سے دور نہیں کرتے اس فکر سے کہ اگر یہ چلی گئی تو ہمارا سہارا کون بنے گا، گھر کیسے چلے گا، یہ تو کماتی ہے اگر پرائے گھر کی ہوگئی تو ہمارے باقی بچوں کا کیا ہوگا۔۔۔۔
کچھ والدین اس فکر میں اس حد تک خود غرض ہو جاتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کی خوشیوں تک کو قربان کر دیتے ہیں۔ اس بلاگ میں میں نے ایک ایسی ہی لڑکی سے بات کی ہے۔ اس کا بھائی تو نہیں ہے مگر اس نے اپنے خاندان کی ذمہ داری اس بہادری سے اپنے سر لی ہے کہ شاید کوئی بیٹا بھی ایسا نہ کر پاتا، جو اپنے ماں باپ کا بیٹا، بہنوں کی بہن اور بھائی بن کر ان کا خیال رکھ رہی ہے۔
اس کی پر وقار شخصیت ہر یہ سوال اٹھانے والے کے منہ پر تمانچہ ہے جو کہتے ہیں، ہائے تمہارا بیٹا نہیں ہے، تمہارا مستقبل میں سہارا کون ہوگا۔ جہاں ایک لڑکی چاہے کتنی ہی معاشرے میں اپنی جگہ بنا کر خود کو قدم قدم پر ثابت کرے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیڑیاں پھر بھی اس کے پاؤں میں ہوتی ہیں۔
نہ جانے کیوں کبھی کبھی ماں باپ اپنی سگی بیٹیوں کی خوشیوں کے قاتل بن جاتے ہیں، اور اس کی وہ ذمہ داریاں جسے وہ کبھی اپنا فرض سمجھ کر نبھاتی ہے اس کے گناہ میں شمار ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ اگر ضرورت سے زیادہ خیال نہ رکھتی تو شاید وہ اپنی کچھ زندگی اپنے لئے بھی جی لیتی۔
شکیلہ (فرضی نام) نے بھی اپنے ماں باپ اور بہنوں کی خوشی کے لئے اپنی خوشیاں قربان کردی ہے۔ وہ کہتی ہے جب کوئی رشتہ آتا ہے تو گھر میں فساد برپا ہو جاتا ہے اور ان کے والدین رشتہ والے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
میرے ماں باپ کو میرے رشتے کے لئے آنے والے اس قدر ناگوار لگتے ہیں کہ میرا دل کرتا ہے کاش یہ لوگ پہلے مجھ سے ملے ہوتے اور میں انہیں پہلے ہی انکار کر دیتی کم از کم گھر میں اتنا فساد تو نہ ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی دوسری بیٹی کی شادی نہیں کرائے گے اس وقت میرے رشتے کی بات ان سے برداشت نہیں ہوتی۔
شادی عورت اور مرد دونوں کی ضرورت ہے، کوئی مرد,عورت اس دنیا میں ایسا نہیں جو اپنی پوری زندگی اکیلے گزارنا چاہیں گے۔ شکیلہ نے بتایا کہ آج میرے والدین ہے، میری بہن ہے، اور میں خوشی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہوں، ہاں اگر کل کو میری بہن کی کفالت مجھے کرنی پڑی تو میں اس کی خوشی کا سوچتے ہوئے پہلا فیصلہ اس کی شادی کا لونگی۔
مگر اپنی زندگی کے بارے میں مجھے فکر ہے میرے ماں باپ نے کبھی سوچا ہے کہ ان کے بعد میرا کیا ہوگا, آج میں ان کی سب کچھ ہوں، کل کو میرا کون ہوگا, کیا میری بہن ان تمام احسانات کو یاد رکھے گی جو میں نے اپنی خواہشات کا گلہ کاٹ کر پوری کی۔ شکیلہ نے بتایا کہ کل کیا میری بہن بنے گی میرا سہارا ویسے جیسے میں ان کی ڈھال بنی ہوں؟ نہیں، شاید نہیں!
بیٹیاں بہت حساس اور محبت کرنے والی ہوتی ہیں، اپنی خوشیاں آپ پر قربان کر دیتی ہیں، ہاں! انہیں خود سے جدا کرنا کسی کے لئے آسان نہیں ہوتا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ان کو اپنے بعد یوں بے سہارا چھوڑ دے۔ اگر وہ آپ کا خیال رکھ رہی ہے تو آپ کا بھی فرض ہے کہ اپنی بیٹی کو (اگر اس کی خواہش ہو) تو مضبوط ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تھما دیں۔
یاد رکھیں جب ان کی اپنی زندگی مکمل ہوتی ہے تو آپ کی زندگی مزید خوشیوں سے بھر دیتی ہیں اپنی محبت اور توجہ سے، بشرطیکہ قسمت ان کا خوب ساتھ نبھائے۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔