بلاگزلائف سٹائل

کیا زوال اس قدر خوبصورت، دلفریب اور پرسکون بھی ہوسکتا ہے؟

خوشبو

یہ ایک خوبصورت شام تھی جب میں کام سے فارغ ہوکر گھر کی طرف روانہ ہوئی۔ رزد نما سورج، جو میری گاڑی کے ونڈو سکرین سے دکھائی دے رہا تھا، اپنے خوبصورت رنگوں کو گود میں لئے ڈوبنے کو تیار تھا۔ ہمیشہ ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ کیا زوال اس قدر خوبصورت، دلفریب اور پرسکون بھی ہوسکتا ہے؟ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ چند لمحے بعد قدرت مجھے جو زوال دکھائے گا وہ اتنا ہی خوفناک اور رونگھٹے کھڑے کرنے والا ہوگا۔

گاڑی کافی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک ایسی بریک لگی کہ میرے گود میں پڑے تمام کتابیں اور موبائل فون نیچے گر گئے۔ میں نے غصے سے ڈرائیور کو دیکھا لیکن میرے سامنے جو منظر آیا اس نے میرے غصے کو خوف اور اضطراب میں تبدیل کردیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص نہایت ہی بے چینی سے روڈ کے دوسرے طرف کھڑے نوجوان لڑکے کی طرف دوڑ رہا تھا جس نے پہلے ہی سے اپنے گنپٹی پر پستول تھانی ہوئی تھی۔ اس آدمی کے پہنچنے سے پہلے ہی اس نے خود کو شوٹ کردیا اور لمحے بھر میں اپنی سانسوں کا گلا گھونٹ دیا۔ میں دیکھتی رہی کہ جو شخص لمحہ پہلے اکیلے اپنے نا امیدی کے ساتھ کھڑا تھا پل بھر میں اس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ میں نے اس نوجوان کو اس کے ٹوٹتی سانسوں اور خواہشات سمیت زمین پر گرتے دیکھا۔

زندگی کیا اتنی بھی بوجھل ہو سکتی ہے کہ موت آسان لگنے لگے؟ کیا کوئی اپنے سانسوں سے اتنا بے بس بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو اس طرح چھوڑ دے اور زندگی بھر کا روگ تھما دے؟ یہ میرے لیے کسی ٹراما سے کم نہ تھا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح دیگر ممالک کے بنسبت کم بتائی گئی ہے لیکن حقیت یہ ہے کہ پاکستان میں یہ شرح کافی زیادہ ہے تاہم المیہ یہ ہے کہ یہاں اس قسم کے زیادہ تر واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے جس کے باعث یہ تعداد کم بتائی گئی ہے۔ 2017 میں ہونے والے ایک ان لائن سروے میں لوگوں سے خودکشی کے حوالے سے ان کے نظریات اور ان واقعات کے بارے میں پوچھا گیا تھا جو ان کی زندگی میں آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ہمیں سکون کیوں ملتا ہے؟

اس سروے میں 38 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر خودکشی کی ہے، 45 فیصد کا کہنا تھا کہ خودکشی کا خیال اکثر ان کے ذہنوں میں آتا ہے لیکن کبھی ان پر عمل درآمد نہیں کیا جبکہ 6 فیصد لوگوں نے جان لینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔ جن لوگوں پر یہ سروے کیا کیا تھا اُن کے عمرے 18 سے 40 سال کے درمیاں تھیں جن میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ تھیں۔

اپنی جان لینا آسان نہیں ہوتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے کون سے عوامل ہیں جس نے انسان کو اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کردیا ہے؟

ایک نفسیاتی مطالعے میں خودکشی کرنے کے جو وجوہات سامنے آئے ہیں ان میں ذہنی دباؤ (Depression) سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری، تعلقاتی مسائل اور ان کی زندگیوں میں پیش آنے والے منفی واقعات بھی کچھ لوگوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں حالات نہایت سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے جہاں عوام کا جینا محال کیا ہے وہاں ناانصافی، تعصب پسندی اور سیاسی انتشار نے نوجوان نسل کے ذہنی دباؤ میں شدید قسم کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ جو صحت بخش کام یے، جیسے کرکٹ، جسمانی مشقت والے ورزشیں، گروپ پلے وغیرہ اس کی طرف رجحان کافی کم ہو چکا ہے اور ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تر وقت موبائل سکرین (ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب) کے ساتھ گزرتا ہے جس نے ذہنی پریشانی اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

ہماری نئی نسل کے پاس زندگی کی سہولیات تو ہے لیکن وہ پر خلوص محبت اور اپنائی سے محروم ہیں جو انسان کی اندر کی خلا پر کرکے اور ان کی شخصیت کو مکمل کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات انسان ہجوم میں بھی خود کو تنہا پاتا ہے، یوں لگتا ہے کہ ہمیں کوئی سمجھنے والا نہیں ہے جبکہ یہ سوچ انسان کو تنہائی کا شکار بنا دیتی ہے اور اس طرح انسان مایوسی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ رویوں سے مایوس ہوکر، حالات سے مجبور ہوکر، خود سے تنہا لڑ لڑ کر جب انسان تھک جاتا ہے تب اتنا بڑا قدم اُٹھائے پر مجبور ہو جاتا ہے، لیکن کیا قدرت نے انسان کو اتنا کمزور بنایا ہے کہ حالات سے ہار جائے؟ اگر ایسا ہے تو پھر انسان کو اشرف المحلوقات کیوں کہا گیا ہے؟

مایوسی انسان کو کمزور بنا دیتی ہے اس لیے تو مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر آپ کو بھی اس قسم کے خیالات آتے ہیں یا آپ نے اپنے کسی جانے والے کے رویوں میں اس قسم کی تبدیلی محسوس کی ہے  تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟

ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

1 آپ کو ایک سرسٹیفائڈ کلینکل سائیکلوجسٹ سے رجوع کرنا چاہئے جو بذریعہ تھراپی آپ کے ان زخموں پر مرہم رکھے گا جو بظاہر نظر تو نہیں آتے لیکن انسان کو اندر سے دیمک کی طرح ختم کر دیتے ہیں۔ سائیکوتھرپی وہ طریقہ علاج ہے جس میں تھراپسٹ آپ کو آپ کے لیول پر آکر آپ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ کو آپ کے خوبیوں سے متعارف کرواتا ہے۔ cognitive restructuring کے ذریعے آپ کو زندگی کو الگ پہلو سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سائیکوتھرپی صرف باتیں ہے اور بلا باتوں سے کون ٹھیک ہوتا ہے، لیکن یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو آپ کو توڑتے بھی ہے اور جوڑتے بھی ہے۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو زہر بن کر ہمیں مار بھی دیتے ہیں اور کبھی مرہم بن کر زندگی کا سامان بھی بنتے ہیں۔

2 قدرت نے اس دنیا میں کسی چیز کو بے مقصدنہیں بنایا اگر آپ کی سانسیں چل رہی ہے تو یہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہے جس کے لیے آپ اس دنیا میں آئے ہیں۔ آپ کا مقصد دوسرے انسان سے مختلف ہے کیونکہ آپ دوسرے انسان سے الگ ہے۔ اپنے زندگی کا مقصد دریافت کرے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر کے محنت کریں اور خود کو کمفرٹ زون سے باہر نکالے۔

3 خود کو solution focus بنائے problem focus سے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسائل کے بارے میں سوچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا مسائل کے اردگرد گھومنے کے بجائے اس کے حل کے بارے میں سوچے کہ اس سے باہر کیسے نکلے۔  ہمارے زندگی میں جو ہوتا ہے اس کا ہم پر صرف 10 فیصد اثر ہوتا ہے باقی 90 فیصد اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے۔

4 سب سے ضروری چیز خود کو معاف کرنا سیکھیں۔ ان غلطیوں کے لیے جو آپ سے ہوئی ہے اور خود کو اپنے خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرے جیسا کہ آپ ہے۔ خود سے محبت کرنا سیکھں،خود سے محبت کرنے کا مطلب ہے خود کو ایک high value انسان سمجھنا، اپنی عزت نفس اور خوشی کو اہمیت دینا۔

زندگی بہت قیمتی ہے، اپنا اور اپنے سے جوڑے رشتوں کا خیال رکھیں، جو بھی کرے صاف نیت سے کرے اور کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے کیونکہ جب امیدیں ٹوٹتی ہے تو انسان بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔

خوشبو ایک ماہر نفسیات ہیں اور ٹی این این کے لیے مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button