کیا ہماری عدلیہ انصاف پر مبنی فیصلے کرتی ہے؟
سندس بہروز
بی ایس کرتے ہوئے ہمارے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اکثر عدلیہ کی اہمیت پر بات کرتے تھے۔ ان کے لیکچرز میں اکثر یہی بات ہوتی تھی کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی عدلیہ مضبوط ہو اور انصاف پر مبنی فیصلے کرتی ہو۔ یعنی کہ کسی بھی ملک کی عدلیہ اگر مضبوط ہو تو اس کی ساکھ بھی مضبوط رہتی ہے اور ایسا ملک دنیا کے نقشے پر ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہتا ہے۔
ائیے یہی بات ذرا ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں۔ قانون کے مطابق انصاف کے جھنڈے تلے ہم سب برابر ہیں۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب،گورا ہو یا کالا،تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ،عورت ہو یا مرد۔ مگر کیا اپ کو نہیں لگتا کہ میری یہ سب باتیں کتابی ہے انصاف کے جھنڈے تلے برابری کی باتیں شاید حضرت عمر کے دور میں صحیح ہوتی ہوں گی ہمارے ملک میں یہ باتیں واقعی کسی افسانوی کہانی کا حصہ لگتی ہے۔
مثلا پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ہم نے فرمان اللہ کا کیس دیکھا جو کہ غریب ائس کریم بیچنے والا تھا اس کو بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ تین مہینے کی جیل کی سزا بھی ہوئی۔ آخر اس غریب ائس کریم بیچنے والے کا جرم کیا تھا۔ یہی کہ اس نے فیصل مسجد کے سامنے اپنی ائس کریم کی ریڑھی لگائی تھی۔ معاملہ تب بھی دبا رہتا اگر ٹویٹر کے ذریعے عوام کو اس کی خبر نہ ہوتی اور اس کے لیے عوام اواز نہ اٹھاتی۔ یعنی کہ اب ہمارے ملک میں عدلیہ انصاف تب کرے گی جب عوام سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر غم و غصے کا اظہار کرے گی۔
غریب فرمان اللہ کو عوام کے پرزور احتجاج پر انصاف مل گیا اور وہ ضمانت حاصل کر پایا۔ ایسا ہی ایک کیس سول جج عاصم حفیظ کے گھر دیکھا گیا۔ سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کا 14 سالہ ملازمہ پر تشدد کا واقعہ بھی اگر سوشل میڈیا پر نہ اتا اور لوگ اس کی پرزور مذمت نہ کرتے تو شاید یہاں بھی 14 سالہ رضوانہ کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی۔ پہلے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ قانون کے مطابق کمسن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی جرم ہے، کیا یہ بات قانون کی پاسداری کرنے والے جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم نہ تھی؟ اور ایسا نہیں کہ تشدد صرف اسی دن ہوا تھا بلکہ ڈاکٹرز کے مطابق بچی کے جسم پر زخم کافی پرانے ہیں اور اس کی خوراک کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے یعنی کہ اس دن اگر تشدد کی انتہا ہوئی تو اس سے پہلے بھی بچی پر وقتاً فوقتاً تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ ادھر بھی جج کی اہلیہ کو ضمانت دے دی گئی مگر دوسری دفعہ ضمانت کی درخواست رد کر دی گئی اور ان کو عدالت کے احاطے ہی سے گرفتار کر دیا گیا۔ یہاں بھی سوشل میڈیا کا بھرپور احتجاج دیکھنے کو ملا۔ عام عوام کے ساتھ مختلف اداکاروں نے بھی رضوانہ تشدد کیس کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی ملک کی عدلیہ کو کسی کے دباؤ میں انا چاہیے؟ کیا ہمارے ملک کی عدلیہ تب تک انصاف پر مبنی فیصلے نہیں کرے گی جب تک عوام اور سوشل میڈیا کا پرزور احتجاج نہیں ہوگا؟ کیا واقعی ہم انصاف کے جھنڈے تلے سب برابر ہیں؟ کہ ہمارے ملک کی عدلیہ واقعی ازاد ہے؟
سندس بہروز انگلش لٹریچر میں ایم فل کر رہی ہے اور ساتھ ہی سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہے۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔