وہ دن دور نہیں جب لوگ اپنے گھر کے میٹر حکومت کو واپس کر دینگے
انیلا نایاب
دنیا بھر کے ممالک میں نا بجلی شارٹیج یا ٹرپ کا کوئی مسئلہ ہے نا لوڈشیڈنگ کا لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں مہنگائی ،بدامنی کے ساتھ ساتھ بجلی شارٹ فال نے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ شارٹ فال یا ٹرپ ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بل آسمان سے باتیں کرنے لگے ہے۔ گرمی میں تو لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔
ہر چند دن بعد بجلی کے بل میں اضافہ ہورہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب لوگ خرچہ برداشت نا کرنے کی وجہ سے اپنے گھر کے میٹر حکومت کو واپس کر دینگے۔
ہر سال جون کے مہینے میں بجٹ پیش ہونے کے ساتھ ملک میں تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھتی اور یہ صرف ایک دفعہ ہوتا لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران سال میں کئی دفعہ اور اگر یہ کہا جائے کہ ہرمہینے منی بجٹ کے نتیجے میں اشیاء خوردونوش اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے تو غلط ناہوگا لیکن اس سال بجلی کے نرخ میں اضافے نے باقی تمام چیزوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
رواں سال بنیادی ضروریات اور خوراک کی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت میں اضافے نے سب کے ہوش اڑا دیے ہیں۔
پاکستان میں پچھلے چند روز کے دوران بجلی کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے اب غریب عوام کو ایک یونٹ 50 روپے میں ملے گا جس کے بعد ملک کے غریب طبقے کو فکر لاحق ہو گئی ہے کہ اب انکو بجلی کے بل میں کتنا اضافہ دیکھنے کو ملے گا اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کا بل کیسے ادا کرینگے۔
مہنگائی کے اس دور میں 50 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا ایک سفید پوش کے بس کی بات نہیں کیونکہ مزدور کی ایک دن کی آمدن 1000 روپے سے زیادہ نہیں جس میں اس نے اپنے گھر میں راشن کے ساتھ ساتھ اور ضروریات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ بجلی کا فی یونٹ 50 روپے ہیں لیکن یہ ٹیکس کے علاوہ ہے۔ یہ اضافہ ان پر ایٹم بم یا آسمانی بجلی گرنے کے برابر ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس اضافے سے نا صرف غرباء بلکہ ہر طبقہ متاثر ہوا ہے سوائے انکے جو بجلی چوری کرتے ہیں۔ نا پہلے انکو بل سے کوئی سروکار ہوتا اور نا اب ،کیونکہ یہ کنڈے ڈال کے پہلے بھی آرام سے گرمی میں ایئر کنڈیشنر اور سردیوں میں بجلی کا ہیٹر لگا کر مزے لیتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی کریں گے لیکن ہماری بدقسمتی اور انکی خوش قسمتی کہ انکوکوئی کچھ کہنے والا نہیں کیونکہ ایسے لوگ میٹر ریڈر یا بجلی کے شعبے میں کام کرنے والوں کو رشوت چائے پانی کی شکل میں ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے پھر وہی خرچ شدہ یونٹ جو بل ادا کرتا ہے ان سے ان کے بل میں زیادہ یونٹ ڈال کر وصول کیا جاتا ہے۔
چونکہ اج کل گرمی کا موسم ہے اور بجلی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے غریب بہت گزارہ کر بھی لے اور ضروریات جو کہ بجلی سے وابستہ ہو اسکو ترک بھی کریں کم سے کم ایک پنکھے کا استعمال تو ضروری کریگا ایک پنکھے کا بل بھی 10 سے 12 ہزار تک آتا ہے۔
مہنگائی کے اس طوفان نے ایک غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اسکی زندگی کو کافی حد تک مشکل بنا دی ہیں۔
ہر طرف غریب خوار ہو رہا ہے سرمایہ دار لوگوں پر مہنگائی کا فرق نہیں پڑتا۔ مہنگائی کا اثر صرف اور صرف غریب عوام پر پڑتا ہے۔ اس ملک میں غریب کا جینا بہت مشکل ہے۔ حکمرانوں کو تو غریب عوام کی کوئی فکر نہیں۔ پتہ نہیں ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟